روش کمار
کورونا بحران شروع ہونے کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کے بشمول کئی ریاستی حکومتوں نے اپنے کسانوں، مزدوروں اور مختلف وظائف حاصل کرنے والوں کے کھاتے میں رقم جمع کروائے ہیں۔ اناج دیا ہے اور مفت گیس سلینڈر بھی فراہم کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بڑا طبقہ اس کے بعد بھی محروم ہے اور اس طبقہ کی پریشانیوں کو اجاگر کرتے رہنا چاہئے۔ لیکن اس وقت یہ تعداد جاننا ضروری ہے کہ آبادی کے کتنے بڑے حصہ کو ان اعلانات کے دائرے میں لایا گیا۔ ان کی آڈٹ ہونا چاہئے لیکن یہ تصویر سامنے نہیں ہوگی تو پھر صحیح تصویر نہیں ہوگی۔ میڈیا نے تیزی سے سرکاری اعلانات کا آڈٹ چھوڑ دیا ہے۔ رپورٹنگ سے اس کا اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ کس مقام پر کتنے ایسے لوگ ہیں جو ان اعلانات کے استفادہ کنندگان ہیں اور کتنے اسفادہ کنندگان نہیں ہیں؟ جو استفادہ کنندگان کے اکاونٹس ہیں ان کے بینک کھاتوں میں کتنی رقم ڈالی گئی ہے؟ 16 اپریل کو یوپی حکومت نے اعداد و شمار پیش کیا ہے کہ ایک دن میں 61 لاکھ راشن کارڈ گرندوں کو 1.3 لاکھ میٹرک ٹن اناج دیا ہے۔ مفت چاول دیا گیا ہے۔ پھر خاندانوں کے افراد خاندان کی تعداد جوڑکر 2.59 کروڑ بتائی گئی ہے۔ یوپی میں 3.56 کروڑ راشن کارڈس ہیں ہر دن مفت چاول دیا جارہا ہے جیسے تین اپریل کو 58 لاکھ کارڈس پر اناج دیا گیا تھا۔یوپی حکومت نے 16 اپریل کو ٹوئٹ کیا ہے کہ دوسرے مرحلہ کے تین کروڑ 58 لاکھ 27 ہزار راشن کارڈس ہیں اس تعلق سے 46 لاکھ 31 ہزار 990 کارڈس پر مفت اناج دیا گیا ہے۔
اترپردیش کی آبادی 23 کروڑ ہے۔ بڑا حصہ غریب اور کم آمدنی کا حامل ہوگا لیکن یہاں 3.56 کروڑ ہی راشن کارڈ رکھنے والے ہیں تو ایک طرف آپ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت 3.5 کروڑ کارڈ گرندوں کو اناج کافی موثر انداز میں دے رہی ہے لیکن جو لوگ چھوٹ گئے ہیں ان کی تعداد کیا ہے؟ ان کی زندگی کیسے گذر رہی ہوگی؟ اب ہمیں نہیں معلوم کے پہلے دن چاول ہی کیوں تقسیم کیا گیا یا چاول کے علاوہ ایک کیلو دال بھی ملی ہے۔ باقی اشیاء بھی ملی ہیں یہ حکومت کے ٹوئٹر ہینڈل سے واضح نہیں ہوتا ہے۔ہمارے پاس یہ جاننے کا دوسرا ذریعہ نہیں ہے کہ یوپی میں کتنے لوگ اہل ہوسکتے تھے مگر راشن کارڈ سسٹم سے باہر کئے گئے یوپی حکومت کے ایک اور ٹوئٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں قریب 7 لاکھ غذائی پیاکٹس تقسیم کئے گئے۔ 1607 مختلف اداروں کی جانب سے کیا انہیں حکومت رقم دے رہی ہے جو حکومت اپنے اکاونٹ میں گن رہی ہے؟ لیکن اس ٹوئٹ میں علیحدہ طور پر بتایا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ دراصل دوسرے سرکاری اداروں کے ذریعہ غذائی اشیاء کی شکل میں 5,64,881 غذائی بیاکٹس کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ایک دوسرے ٹوئٹ میں یوپی حکومت نے لکھا ہے کہ ریاست میں 12,73,000 سے زائد غذائی پیاکٹس تقسیم کئے گئے ہیں۔ غذائی پیاکٹوں سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پیاکٹس میں کیا ہے؟ غذائی مقدار کیا ہے؟ تپہ نہیں چلتا کہ یہ برابر ہے یا کم ہے۔
دہلی کے مقابل یوپی کئی گنا بڑا ہے۔ دہلی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ہر شام 9 تا 10 لاکھ لوگوں کو کھانا کھلا رہی ہے تو کیا یوپی حکومت پونے چھ لاکھ پیاکٹس بھی نہیں بانٹ رہی ہے؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ وہ 6 لاکھ لوگوں کو بھی کھانا نہیں کھلا پا رہی ہے۔ ویسے یہ واضح نہیں ہے کہ پونے چھ لاکھ سے بھی کم غذائی پیاکٹس کس بنیاد پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ جیسے ایک عام آدمی کو دو دو پیاکٹس ملے ہوں گے تب تک لوگوں کی تعداد کے حساب سے یہ تعداد کچھ بھی نہیں ہے۔ امید ہے کہ یوپی حکومت اگلی پریس کانفرنس میں اس تعلق سے وضاحت کرے گی۔ حکومت بہار نے 84 لاکھ کارڈ گرندوں کے بینک اکاؤنٹس میں ایک ایک ہزار روپے جمع کروائے ہیں۔ سماجی سیکوریٹی کے تحت وظائف پانے والوں کے کھاتے میں بھی ایک ہزار روپے جمع کروائے گئے ہیں۔ حکومت بہار جملہ 2000 کروڑ روپے لوگوں کو دے چکی ہے۔
ایک غریب ریاست میں صرف 84 لاکھ راشن کارڈ گیرندے ہیں جواب ہاں میں ہے تو یہ تعداد شرمناک اور اوسان خطا کرنے والے ہیں، ہمارے پاس ساری تعداد دستیاب نہیں لیکن 12 کروڑ کی آبادی والی اس ریاست میں ایک کروڑ سے کچھ زیادہ لوگوں کو ہی مالی مدد ملی ہے۔ کیا اسے عام حکومت کی کامیابی یا موثریت کہنا چاہئیں گے۔ بہتر ہوتا کہ مرکز کی جانب سے ہر ریاست کا ڈیٹا ملتا کہ اس کی اور ریاستی حکومت کی اسکیمات کے تحت کتنے کروڑ لوگوں کے بینک اکاونٹس میں رقم گئی ہے؟ کتنے کروڑ کھاتے ہیں جن میں دونوں حکومتوں کے پیسے گئے ہیں اور اسی طرح کتنے کروڑ لوگ ایسے ہیں جو سطح غربت سے تھوڑے اوپر ہیں اور سطح پر ہیں اور نیچے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملا ہے۔