مرکز کی اڈوائزری ‘ کتنی سنجیدہ

   

سوگئے آج تو سمجھ لیجئے
جاوداں ہوگئی شبِ ہجراں
مرکز کی اڈوائزری ‘ کتنی سنجیدہ
مرکزی حکومت نے ایک اڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کیلئے کسی طبقہ یا فرقہ کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے اور نہ کسی پر تہمت لگائی جانی چاہئے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کے وقت میں صحت عاملہ کا مسئلہ ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ ان امراض سے خوف واضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں کسی طبقہ یا فرقہ کے خلاف کسی بھی قسم کی رائے زنی کے تبصرے مناسب نہیں ہوتے اور اس سے سماجی دوری اور نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ مرکزی حکومت کی یہ اڈوائزری کافی تاخیر سے جاری کی گئی ہے جس سے حکومت کی سنجیدگی پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے ۔ جو باتیں اس اڈوائزری میں کہی گئی ہیں وہ بالکل حقیقت ہیں اور کسی طبقہ یا فرقہ یا علاقہ کو نشانہ بنانے سے سماج میں دوریاں ہی نہیں بلکہ نفرت بھی پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا ہوچکا ہے ۔ دہلی کے نظام الدین مرکز میں ہوئے تبلیغی اجتماع کو ہندوستانی میڈیا نے جس طرح سے پیش کیا ہے اس نے سارے ہندوستان کے ماحول کو انتہائی مشکل اور بحران کے اس وقت میں بھی مزید زہر آلود کردیا ہے ۔ کورونا وائرس تو ایک فرد سے دوسرے فرد کے رابطے یا ملنے سے پھیلتا ہے لیکن جو وائرس اور جو زہر میڈیا کے ذریعہ عوام کے ذہنوں میں ایک مخصوص انداز میں انڈیلا گیا ہے اس نے اپنا رنگ دکھانا بھی شروع کردیا ہے ۔ اترپردیش کے علاوہ کئی اور ریاستوں میں مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ نہ صرف سماجی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں بلکہ مسلمانوں کا سماجی مقاطعہ شروع کردیا گیا ہے ۔ جس طرح سے کسی زمانے میں ہریجنوں کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا آج اسی طرح مسلمانوں کو حاشیہ پر کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ کچھ دیہی علاقوں میں خاص طور پر مسلمانوں سے تجارت نہیں کی جا رہی ہے ۔ نہ ان سے کوئی سامان خریدا جا رہا ہے اور نہ انہیں کوئی سامان فروخت کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک مذہبی خط کھینچ دیا گیا ہے جس نے عملا عوام کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ زہر افشانی ایسے وقت میں کی گئی ہے جبکہ سارا ملک کورونا وائرس کا قہر جھیل رہا ہے ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاون کے ابتدائی ایک ہفتے تک تو صورتحال ایسی رہی کہ سارا ملک متحد نظر آ رہا تھا ۔ لوگ مشکل وقت کا مل کر سامنا کرنے میں ایک جٹ ہو رہے تھے لیکن تبلیغی اجتماع کا جب بہانہ خود حکومت اور زر خرید میڈیا کے ہاتھ آیا تو پھر ایسا لگا کہ یہ میڈیا بھی آٹھ دن کے لاک ڈاون کے بعد بے لگام ہوچکا ہے اور اس کی ہندو ۔ مسلم راگ الاپنے کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ میڈیا نے عوام کی مشکلات کو پیش کرنے او ان کے حالات سے حکومت کو باخبر کرنے ‘ عوام کو امداد پہونچانے کی جانب توجہ دلانے اور سماج میں شعور بیدار کرنے کی بجائے ذہنوں میں زہر گھولنا شروع کردیا تھا ۔ ملک کے تقریبا ہر چینل پر ایسا لگ رہا تھا کہ فرقہ پرستی کی مثال قائم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور کوئی بھی چینل دوسرے سے پیچھے رہنے کو تیار ہیں تھا ۔ اگر کسی ہنگامی نوعیت کے بحران میں بھی ‘ جس سے سارے ہندوستان کے عوام کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ‘ میڈیا کی جانب سے اسی طرح کی زہر افشانی کی جاتی ہے تو پھر اصل مسئلہ کہیں پس منظر میں چلا جائیگا اور عوام کورونا وائرس سے تو کم متاثر ہونگے لیکن فرقہ پرستی کے وائرس سے زیادہ متاثر ہونگے ۔ اس کی مثالیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اترپردیش کے کئی اضلاع سے مسلم دشمنی کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔ وہاں مسلمانوں کو رسواء کرنے اور سماج میں ان کی شبیہہ کو متاثر کرنے کیلئے فرضی خبروں کا سیلاب آگیا تھا ۔ خود یو پی حکومت نے ایسی فرضی خبروں کا پردہ فاش بھی کیا ہے ۔
جہاں تک مرکزی حکومت کی اڈوائزری کی بات ہے تو یہ کافی تاخیر سے جاری کی گئی ہے ۔ ابتداء سے ہی اگر حالات کو بگڑنے اور سماج میں زہر گھولنے سے روکا جانا چاہئے تھا ۔ اس کے علاوہ اب جبکہ حکومت کو بھی صورتحال کا بظاہر احساس ہونے لگا ہے تو صرف اڈوائزری جاری کرتے ہوئے بھی حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ جس طر ح سے سوشیل میڈیا پر نظر رکھتے ہوئے افواہیں پھیلانے اور نفرت پھیلانے والو ں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اسی طرح سے قومی میڈیا پر بھی نظر رکھنا حکومت کا فریضہ اور ذمہ ہے ۔ جن لوگوں نے نفرت پھیلائی ہے یا پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف بھی حکومت کو کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جس طرح سے مہاراشٹرا میں کچھ چینلس کے خلاف کیا گیا ہے ۔