مرکز کی ایک اور سرزنش

   


اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور دیگر مخالفین پر بے دریغ مقدمات کے اندراج پر مرکز اور مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو مسلسل عدالتوں کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ گذشتہ چند ماہ سے عدالتوں میں مرکز اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہزیمت کا سامنا ہو رہا ہے تاہم ایسا لگتاہے کہ اس کے باوجود نہ مرکز کے رویہ میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے اور نہ ہی تحقیقاتی ایجنسیاں سیاسی اشاروں پر کام کرنے کا سلسلہ بند کرنے کو تیار ہیں۔ تازہ ترین معاملہ شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کے رکن راجیہ سبھا سنجے راوت کا ہے جنہیں تین ماہ قبل منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ تین ماہ سے ان کی ضمانت نہیں ہو پا رہی تھی تاہم ممبئی کی ایک پی ایم ایل اے کی خصوصی عدالت نے نہ صرف سنجے راوت کو ضمانت منظور کردی بلکہ عدالت نے کہا کہ کسی وجہ کے بغیر سنجے راوت کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ ایک طرح سے یہ گرفتاری غیر قانونی ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ عدالت نے جو ریمارک کیا ہے اس کے مطابق اس گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ ملک بھر میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں مرکزی حکومت کی جانب سے تحقیقاتی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کی مثالیں ملتی ہیں۔ جو کوئی حکومت سے اختلاف کرے یا سیاسی مقابلہ آرائی کو ترجیح دے اسے نشانہ بنانے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ سیاسی قائدین کے علاوہ سماجی جہد کار ہوں یا پھر صحافی ہوں ‘ وکلاء ہوں یا پھر انسانی حقوق کے کارکن ہوں ‘ طلباء ہوںیا پھر کوئی اور ہو ان کے خلاف گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ مرکزی حکومت یا پھر ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں کے خلاف موقف اختیار کرنے اور حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو اجاگر کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ۔ کئی افراد جن میں جہد کار اور صحافی بھی شامل ہیں دو سال سے زیادہ عرصہ سے اسی طرح کے مقدمات میں جیلوں میںبند ہیں۔ انہیں ضمانتیں تک منظور نہیں کی جا رہی ہیں کیونکہ تحقیقاتی ایجنسیاں اس راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔ان پر جو مقدمات ہیں وہ بھی انتہائی سنگین نوعیت کے دائر کئے جا رہے ہیں۔
اترپردیش میں سماجوادی پارٹی لیڈر اعظم خان کو نشانہ بناتے ہوئے جیل میں قید کیا گیا تھا ۔ عدالتوں سے اس پر بھی پھٹکار سناتے ہوئے انہیں ضمانت دی گئی ۔ اسی طرح کئی جہد کار ایسے ہیں جنہیں مقدمات میں ماخوذ کیا گیا ۔ سیاسی قائدین کو بھی نشانہ بنانے کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ چاہے کسی بھی جماعت کے ہوں اگر حکومت کے خلاف سرگرم رہتے ہیں تو ان کے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے ۔ تلنگانہ میں بھی اسی طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بنگال میں یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا ۔ دہلی میں بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے شیوسینا کارکنوں کے حوصلے پست کئے گئے ان کے قائدین کو گرفتار کیا گیا اور پھر بعد میں وہاں حکومت ہی کو زوال کا شکار کرتے ہوئے بی جے پی نے پچھلے دروازے سے حکومت میں حصہ داری حاصل کرلی ۔ جہاں تک سنجے راوت کا سوال ہے وہ شیوسینا کے اصل ترجمان کا رول نبھا رہے تھے ۔ وہ شعلہ بیان بھی ہیں اور انہوں نے ہر معاملے میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنے اور اس سے سوال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ شائد اسی لئے ایک پرانے کیس میں انہیں ماخوذ کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور تین ماہ بعد عدالت نے ان کی گرفتاری کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ضمانت منظور کردی ہے ۔ عدالتوں کے ریمارکس تحقیقاتی ایجنسیوں کے رول پر سوال ہیں۔
تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپنا کام کاج غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ پورا کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کے اشارے پر کام کرنا ان ایجنسیوں کی غیر جانبداری پر سوال پیدا کرتا ہے ۔ عدالتوں کی جانب سے مسلسل پھٹکار اور سرزنش بھی ان کے حوصلے پست کرنے کی وجہ بن سکتی ہے ۔ ایجنسیوں کو قانون کی بنیاد پر اور شواہد کی مدد سے کام کرنا چاہئے ۔ اگر وہ سیاسی اشاروں پر کام کرتی رہیں گی تو اس سے تحقیقاتی ایجنسیوں پر عوامی اعتماد جو متزلزل ہوچکا ہے وہ ختم بھی ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود مرکزی حکومت بھی ان ایجنسیوں کے بیجا استعمال کا سلسلہ ترک کرے اور انہیں پیشہ ورانہ دیانت اور مہارت اور غیرجانبداری کے ساتھ کام کرنے کا موقع دے اور ان کے کام کاج میں مداخلت سے باز آجائے ۔