تو میرے جذبے کی سچائی سے ہے ناواقف
میں تیری جھوٹی محبت سے خوب واقف ہوں
وزیر اعظم نریندرمودی نے آج ریاستی چیف منسٹروں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کے لیفٹننٹ گورنرس کے ساتھ ایک اجلاس میںشرکت کی ۔ وزیر اعظم نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر مرکز اور ریاستیں ٹیم انڈیا کی طرح مل کر کام کریں تو ہندوستان میں تمام مسائل کی یکسوئی ممکن ہے ۔ کوئی مقصد ناممکن نہیں رہے گا ۔ ہندوستان جہاں ایک جمہوری ملک ہے وہیں وفاقی طرز حکمرانی والا ملک بھی ہے ۔ یہاں مرکز اور ریاستیں مل جل کر ہی کام کرنا چاہئے ۔ مرکز میں چاہے جس کسی پارٹی کی حکومت ہو اور ریاستوں میں چاہے جو کوئی جماعتیں برسر اقتدار ہوں ان کو ریاستوں اور بحیثیت مجموعی ملک کے مفاد میں مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیاسی وابستگیوں کا خیال صرف انتخابات تک محدود رہنا چاہئے اور انتخابات کے بعد جس کسی پارٹی کو عوام اقتدار سونپیں انہیں اپنی ریاستوں اور ملک کے مفاد میں اور ملک کے عوام کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہندوستان میں وفاقی طرز حکمرانی اسی بات پر زور دیتی ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے ۔ ہر کامیابی کو شخصیت پرستی سے جوڑا جا رہا ہے ۔ ہر ناکامی کو سابقہ حکمرانوں کے گلے باندھا جا رہا ہے اور صرف سیاسی ہتھکنڈوں اور تشہیر پر اکتفاء کرتے ہوئے کام چلایا جا رہا ہے ۔ سیاسی وابستگیوں کا احساس اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ کسی کے مندر جانے اور کسی کے مندر نہ جانے پر سوال ہونے لگے ہیں جبکہ ملک میں سوال پوچھنے کیلئے کئی مسائل موجود ہیں۔ سیاست کو حکمرانی کا حصہ بنادیا گیا ہے اور یہ بات ملک کی جمہوریت اور وفاقی طرز حکمرانی کیلئے انتہائی مضر کہی جاسکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے مابین خیرسگالی تعلقات ہونے چاہئیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو ریاستی حکومتوں کے مسائل کی یکسوئی کیلئے مدد کرنی چاہئے ۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا جانا چاہئے ۔ تاہم ایسا ہو نہیں رہا ہے اور اس کے برخلاف کام کیا جا رہا ہے ۔ ایسا کیا جانا وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ اس سلسلہ کو بند کیا جانا چاہئے اور حقیقی معنوں میں وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں کو فروغ دیا جانا چاہئے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت ہی سرکاری پلیٹ فارمس کو بھی سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ سرکاری اعلانات کو انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور ان ریاستوں پر مراعات کی بارش کی جا رہی ہے جو مرکزی حکومت کے استحکام کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے ان پر مرکزی حکومت کی مہربانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ مرکزی فنڈز کی فراہمی کا جہاں تک سوال ہے اپوزیشن زیر اقتدار ریاستیں لگاتار اس میں نا انصافی کی شکایت کررہی ہیں۔ بہار میں جاریہ سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہار کیلئے کئی اسکیمات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی بی جے پی کی حلیف ہے ۔ آندھرا پردیش کیلئے بھی لگاتار فنڈز فراہم کئے جا رہے ہیں۔ کئی پروگرامس میں وزیر اعظم نریندرمودی شرکت کر رہے ہیں اور فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ سرکاری اسکیمات اور ترقیاتی پراجیکٹس کے افتتاح کا شیڈول کچھ ایسا بنایا جا رہا ہے کہ ان سے انتخابی ریاستوں میں فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ جہاں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی حکومتیں ہیں وہاں درکار فنڈز فراہم کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے ۔ یا تو فنڈز فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں یا پھر انتہائی معمولی فنڈز فراہم کئے جا رہے ہیں۔ یہ جو صورتحال ہے وہ ریاستوں کے درمیان عدم توازن پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ اس ساری صورتحال میں محض سیاسی وابستگیوں کا خیال ہی رکھا جا رہا ہے جبکہ اس سے حکمرانی میں حتی الامکان گریز کیا جا نا چاہئے ۔ یہ طرز عمل وفاقی طرز حکمرانی کے یکسر مغائر ہے ۔ یہ سلسلہ فوری طور پر روکا جانا چاہئے ۔
جس طرح وزیر اعظم نے آج کہا کہ مرکز اور ریاستوں کو مل کر کام کرنا چاہئے تاکہ تمام مسائل کی یکسوئی ممکن ہوسکے ۔تو اس معاملے میں خود مرکز کو پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرکز کو ریاستوں کے ساتھ سربراہ جیسا رویہ اختیار کرتے ہوئے سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہئے کہ ریاستی حکومتیں بھی عوام کی منتخب کردہ حکومتیںہیں اور وہ بھی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتی ہیں۔ ایسے میں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر کام کرنے کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے ملک کی ترقی میں عوام کی حصہ داری کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ اگر کسی ریاست کے عوام کسی دوسری جماعت کو اقتدار دیتے ہیں تو انہیں ترقی میں حصہ داری سے محروم کرتے ہوئے سزا دینے کے سلسلہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
کے کویتا کا مکتوب
بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل کے کویتا نے اپنے والد کے چندر شیکھر راؤ کو پارٹی امور کے تعلق سے ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے ریاست میں سیاسی ہلچل پیدا کردی ہے ۔ حالانکہ خود کویتا اور بی آر ایس نے اسے پارٹی کا داخلی مسئلہ قرار دیا ہے لیکن سیاسی حلقوں میں ہلچل ضرور پیدا ہوگئی ہے ۔ کویتا نے اپنے مکتوب میں جو سوالات کئے ہیں ان کا جواب دینے سے بی آر ایس قیادت خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور اسے داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کویتا کا یہ کہنا کہ ان کے مکتوب کا افشاء محض اتفاق نہیں ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی آر ایس قیادت سے کئی گوشوں کی جانب سے سوال پوچھے جا رہے ہیں لیکن ان کا جواب نہیں دیا گیا ہے ۔ کویتا نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ریاست کے عوام کے ذہنوں میں بھی پیدا ہوئے ہیں۔ بی آر ایس قیادت کو ان سوالات کے جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بھی اطمینان ہوسکے ۔ حالانکہ یہ مسئلہ پارٹی کا داخلی مسئلہ ہی کہا جاسکتا ہے لیکن مکتوب کے افشاء سے اب یہ منظر عام پر آگیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کویتا اس پر مزید کیا موقف اختیار کرتی ہیں اور پارٹی قیادت کی جانب سے ان سوالات پر کیا رویہ اور موقف اختیار کیا جاتا ہے ۔