ابھی کیوں لاؤں کشتی سوئے ساحل
ابھی تو زورِ طوفاں دیکھنا ہے
بہار میں فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا مسئلہ ایک طرح سے طوالت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کے کسی نتیجہ پر پہونچنے کے امکانات معدوم ہونے لگے ہیں۔ بہار میں اچانک ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے جس طرح سے فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کا عمل شروع کیا گیا تھا اس پر کئی سیاسی جماعتوںکو اندیشے اور شبہات لاحق تھے ۔ سیاسی جماعتوںنے ان اندیشوں کا اظہار بھی کیا تھا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی بھی طرح کے شبہات یا شکایتوں کو قبول کرنے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے ۔ کسی کو خاطر میں لانے کیلئے کمیشن تیار نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ خصوصی نظرثانی کے وقت آدھار کارڈ ‘ ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ کو دستاویز کے طور پر قبول کرنے سپریم کورٹ کے مشورہ کو بھی نظر اندز کردیا گیا تھا ۔ اب بھی سپریم کورٹ کے مشورہ کو کمیشن قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے فہرست رائے دہندگان کا مسودہ جاری کردیا گیا ہے ۔ اعتراضات اور شکایات کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے ۔ یہ بھی طئے نہیں ہے کہ جو کچھ بھی شکایات اور اعتراضات داخل کئے جائیں گے ان پر کمیشن کا رد عمل کیا ہوگا ۔ ووٹر لسٹ کے مسودہ کی اجرائی کے فوری بعد بہار میں قائد اپوزیشن و سابق ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو نے اپنا نام فہرست میں شامل نہ ہونے کا ادعا کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں صورتحال واضح کی ۔ انہوں نے راست آن لائین چیک کرتے ہوئے فہرست میں ان کا نام شامل نہ ہونے کا انکشاف کیا تھا ۔ اس صورتحال میں کسی طرح کی وضاحت کرنے اور سارے معاملہ کا جائزہ لینے کی بجائے الیکشن کمیشن نے جوابی دعوی کردیا کہ تیجسوی کا نام فہرست میں شامل ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تیجسوی نے جس ووٹر شناختی کارڈ کا نمبر دکھایا تھا اس پر کوئی ڈاٹا موجود نہیں ہے جبکہ کمیشن نے تیجسوی کا نام شامل رہنے کا دعوی کرتے ہوئے دوسرا نمبر جاری کیا ہے ۔ اب یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تیجسوی کے پاس بھی دو ووٹر شناختی کارڈز تھے ۔ تیجسوی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے شناختی کارڈ کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی جانب سے طلب کی گئی ہیں۔
یہ سارا معاملہ تشویش کا باعث ضرور کہا جاسکتا ہے ۔ اگر تیجسوی یادو کا دعوی درست ہے تو پھر کمیشن کی جانب سے اختیار کیا جانے والا موقف سوال پیدا کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا جانے والا دعوی درست ہے تو پھر تیجسوی نے میڈیا کی موجودگی میں جو آن لائین جانچ کی تھی وہ غلط کیسے ثابت ہوگئی ۔ کیا دو ووٹر شناختی کارڈز قائد اپوزیشن کے پاس ہوسکتے ہیں ؟ ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ہر دو کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک عوام کا تاثر ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن محض فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کے عمل کا جواز پیش کرنے کیلئے اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ تاثر عوام میں پھیلانے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر و موجودہ قائد اپوزیشن کے پاس بھی دو شناختی کارڈز ہیں تو پھر عوام کے پاس کتنے ہوسکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے فہرست رئے دہندگان سے لاکھوں ناموں کو حذف کرنے کے فیصلے کو درست قرار دینے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار میں تین تا چار ماہ قبل ہی فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا معمول کا جو عمل ہوتا ہے وہ مکمل کرلیا گیا تھا ۔ اس کے بعد اچانک ہی خصوصی نظرثانی کی مہم کا شروع کیا جانا ان اندیشوں کی وجہ ضرور کہا جاسکتا ہے جو فی الحال ظاہر کئے جا رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اطمینان بخش انداز میں عوام کے شبہات اور شکایات کا جواب نہیں دیا جا رہا ہے ۔
اب جبکہ فہرست رائے دہندگان کا مسودہ جاری کردیا گیا ہے اور ایکے ماہ بعد اسے قطعی فہرست قرار دیتے ہوئے جاری بھی کردیا جائیگا تو خود الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ فہرست میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا جائے ۔ اس بات کو لازمی طور پر یقینی بنایا جائے کہ کوئی حقیقی رائے دہندہ اپنے حق رائے دہی سے محروم ہونے نہ پائے ۔ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی ۔ کم از کم اب جبکہ مسودہ جاری کردیا گیا ہے صرف انکار کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے عوام میں اعتماد بحال کیا جانا چاہئے ان کی شکایات کا ازالہ کیا جانا چاہئے اور فہرست کی خامیوں کو لازماًدور کیا جانا چاہئے ۔