مسئلہ حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کا

   

گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمانی حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ خاص طور پر جنوبی ہند کی ریاستیں اس مسئلہ پر مرکز سے جداگانہ موقف رکھتی ہیں۔ جنوبی ہند کی ریاستوں کو شکایت ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی حصہ داری شمالی ہند کی ریاستوں کی بہ نسبت کم ہے اور اگر آبادی کے تناسب سے حد بندی کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو س کے نتیجہ میں جنوبی ریاستوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی مزید کم ہوجائے گی ۔ اس ماعملے میںخاص طور پر چیف منسٹر ٹاملناڈو ایم کے اسٹالن او چیف منسٹر تلنگانہ اے ریونت ریڈی زیادہ کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک آن لائین پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے ریونت ریڈی نے آبادی کے تناسب کی بجائے ٹیکس میں حصہ داری کی بنیاد پر حلقہ جات کی حد بندی کرنے پر زور دیا ہے ۔ ابتداء ہی سے ریونت ریڈی اور ایم کے اسٹالن کا کہنا ہے کہ جنوبی ریاستوں سے آبادی کے اعتبار سے حد بندی کی جاتی ہے تو ناانصافی ہوگی ۔اترپردیش ‘ بہار ‘ مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کی نشستوں میں مزید اضافہ ہوگا اور ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی بڑھ جائے گی جو پہلے ہی جنوبی ہند کی ریاستوں سے زیادہ ہے ۔ جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے آثار و قرائن سے یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت آبادی کے اعتبار سے حلقہ جات کی حد بندی کرنا چاہتی ہے ۔ اگر واقعتا ایسا ہوتا ہے تو حقیقت میں جنوبی ریاستوں سے نا انصافی ہوگی اور جنوبی ریاستوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کا تناسب گھٹ جائے گا ۔ یہ درست ہے کہ جنوبی ریاستوں میں بھی نشستوں کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوگا لیکن یہ اضافہ شمالی ریاستوں کی بہ نسبت بہت کم ہوگا ۔ پہلے ہی شمالی ہند کی ریاستوں کی نمائندگی پارلیمنٹ میں زیادہ ہے ۔ نشستوں کی تعداد میں ممعولی اضافہ کے باوجود جنوبی ہند کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کے تناسب میں کمی آجائے گی ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے پر اپنے طور پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کی بجائے تمام ریاستوں سے مشاورت کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یکطرفہ فیصلہ صحیح نہیں ہوگا ۔
ہندوستان ایک بڑا ملک ہے اور یہاں کئی ریاستیںہیں۔ ہر ریاست ملک کا حصہ ہیے ۔ ہر ریاست کے مسائل اور اس کی ترجیحات مختلف رہی ہیں ۔ ہر ریاست کا جغرافیائی اور سیاسی منظرنامہ بھی مختلف ہوتا ہے ۔ مرکزی حکومت کسی ایک حصے یا خطے کی یا کسی ایک ریاست کی نمائندہ نہیں ہے بلکہ سارے ملک کی حکومت ہے ۔ ایسے میں ملک کی ہر ریاست سے انصاف کو یقینی بنانا مرکزی حکومت کا ذمہ ہے ۔ محض ایک پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر حلقہ جات کی حد بندی کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر کئی ریاستوں سے نا انصافی ہوگی اور کئی ریاستوں کو ضروت سے زیادہ فائدہ ہوگا ۔ حکومت کو یہ عدم توازن روکنے کی ضرورت ہے ۔ ہر ریاست کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے اس کے موقف کو مستحکم کرنے اور پارلیمنٹ میںاس کی نمائندگی کو موثر حد تک بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سیاسی فائدہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ایسے فیصلے کئے جاتے ہیں تو ان کے نتیجہ میںریاستوںکو نقصان ہوگا اور یہی بات واضح کرنے کی جنوبی ریاستیں کوشش کر رہی ہیں۔ خود بی جے پی کی حلیف اور آندھرا پردیش کی برسر اقتدار جماعت تلگودیشم بھی کا بھی تقریبا یہی موقف ہے ۔ تاہم تلگودیشم پاٹی کھل کر اس کا اظہار نہیں کر رہی ہے تاکہ اپوزیشن کو اسے نشانہ بنانے کا موقع ہاتھ نہ آجائے ۔ بالواسطہ طور پر تلگودیشم پارٹی آبادی میں اضافہ کی حوصلہ افزائی کے اعلانات کر رہی ہے جس کا وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی طریقے سے اظہار بھی ہونے لگا ہے ۔
مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اہم ترین معاملے میں کوئی بھی قطعی فیصلہ کرنے سے قبل تمام ریاستوں کے ساتھ اجلاس منعقد کرے ۔ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے ۔ ان کی رائے طلب کی جائے ۔ اس رائے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور پھر سب کیلئے قابل قبول کوئی ایسا راستہ دریافت کیا جائے جس کے نتیجہ میں حلقہ جات کی از سر نو حد بندی بھی ممکن ہو اور تمام ریاستوںسے انصاف بھی کیا جاسکے ۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کسی ریاست کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے اور نہ ہی کسی ریاست کو زیادہ فائدہ ہوجائے ۔ سیاسی توازن کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرکے کام کیا جانا چاہئے ۔