جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
جس طرح سے گذشتہ کئی انتخابات سے ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے اندیشے لاحق ہیں اور کچھ گوشوں کی جانب سے مختلف شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اسی طرح سے اس بار پولنگ فیصد یا رائے دہی کے تناسب کے تعلق سے اندیشے پیدا ہوئے ہیں۔ انتخابی عمل چونکہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعہ ہو رہا ہے ایسے میں رائے دہی کی تکمیل کے بعد جتنے ووٹ ڈالے گئے ہیں ان کے تناسب کو جتنا ممکن ہوسکے جلدی بآسانی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات انتخابی عمل کا حصہ کہی جاسکتی ہے کیونکہ انتخابات میں مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی جان ایک طرح سے ان ہی ووٹنگ مشینوں میں پھنسی ہوتی ہے ۔ انہیں اپنے نتیجہ کے تعلق سے بے چینی لاحق ہوتی ہے ۔ ایسے میں رائے دہی کے تناسب کا اگر صحیح اندازہ ہوجائے تو پھر امیدوار اپنے اپنے طور پرا پنے تجزیہ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس بار یہ دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد رائے دہی کے تناسب یا فیصد کا اعلان کرنے میں غیر معمولی وقت لیا گیا ہے ۔ ایسا پہلے شائد ہی کبھی ہوا ہے ۔ سیاسی جماعتوںاور قائدین اور امیدواروں کی جانب سے رائے دہی کے فیصد کا اظہار کرنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس پر بے چینی ایک حد تک واجبی کہی جاسکتی ہے ۔ انتخابات کا عمل ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ پورا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ پریسائیڈنگ آفیسر ہر بوتھ میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے ایک مخصوص فارم کے ذریعہ اعلی حکام کو واقف کروادیتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کے انعقاد کی ہی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جب رائے دہی پوری ہوجائے تو تناسب کا پتہ چلانے میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہئے ۔ یہ ایک عام سوچ اور اندازہ ہے ۔ الیکشن کمیشن کے پاس اگر کچھ وجوہات ہیں تو اس کا بھی اظہار ہونی چاہئے تاکہ نہ صرف سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کو بلکہ ملک کے عوام کو بھی اس سے واقفیت حاصل ہوسکے ۔ انتخابات چونکہ اس بار پوری شدت سے لڑے جا رہے ہیں اور امیدوار پوری جدوجہد کر رہے ہیں ایسے میں انہیں ووٹوں کی تناسب کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے کا پورا موقع بھی ملنا چاہئے ۔ ایسا کیا جانا ملک کے انتخابی عمل کا ہی حصہ ہے ۔
ابتدائی مراحل میں رائے دہی کے فیصد کے اعلان میں جو غیر معمولی وقت لیا گیا ہے اور کئی دن اس میں صرف کئے گئے ہیں تو سیاسی جماعتوں اور امیدواروں میں اس تعلق سے بے چینی پیدا ہوئی ہے ۔ وہ اس تعلق سے لگاتار استفسار کر رہے ہیں۔ اسوسی ایشن برائے جمہوری حقوق کی جانب سے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا ہے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے میں کوئی احکام یا ہدایات جاری کرنے سے انکار کردیا گیا ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس معاملے میں ملک کے عوام میں بھی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی طرح بے چینی پائی جاتی ہے ۔ اس بے چینی کو دور کرنا اور انتخابی عمل کی شفافیت اور کمیشن کے غیر جانبدار ہونے کو واضح کرنا الیکشن کمیشن کا ذمہ بھی ہے ۔ الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے اور کسی حکومت یا شخصیت کے سامنے وہ جوابدہ نہیںہے ۔ ملک کے عوام میں اگر اس تعلق سے کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیں تو ان کو دور کرنا کمیشن کی ترجیح ہونی چاہئے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جبکہ ٹکنالوجی اور الیکٹرانک آلات کا استعمال عام ہوگیا ہے اور اسی کی مدد سے رائے دہی ہو رہی ہے تو ایسے میں اس کے تناسب کے اظہار اور تعین میںاتنا وقت صرف نہیں ہونا چاہئے جتنا لگایا گیا ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں وہ درست ہی ہوں ۔ یہ شبہات محض شبہات ہوسکتے ہیں ۔ بے بنیاد بھی ہوسکتے ہیں۔ ان میں کوئی صداقت نہیں بھی ہوسکتی ہے تاہم ان تمام شبہات کو دور کرنا اور عوام میں جو سوال پیدا ہو رہے ہیں ان کا جواب بھی دیا جانا چاہئے ۔ اس سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔
آج ملک کے چیف الیکشن کمشنر نے دہلی میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ بعد ازاں انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس تعلق سے بے بنیاد شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ آج ہی کمیشن کی جانب سے ابتدائی پانچ مراحل میںڈالے گئے ووٹوں کے مرحلہ وار فیصد اور تناسب کو بھی پیش کیا گیا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ حالانکہ اس پر سپریم کورٹ نے اپنی رائے ظاہر کردی ہے تاہم جہاں تک کمیشن کا سوال ہے تو کمیشن ضرور اس تعلق سے جواب دے گا اور یہ واضح کیا جائیگا کہ کس طرح سے شبہات پیدا کئے گئے ہیں۔ کمیشن کی جانب سے اگر بروقت تمام سوالات کے جواب دئے جاتے ہیں تو یہ عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کو ختم کرنے میں معاون ہوسکتا ہے اور انتخابی عمل کے شفاف اور غیر جانبدار ہونے کے تعلق سے بھی عوام کو یقین دہانی کروائی جاسکتی ہے ۔
اور اب ’مجرا ‘
ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات کیلئے چھ مراحل میں ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ آج چھٹے مرحلے میں پولنگ ہوچکی ہے اور ساتویں اور آخری مرحلہ میں ووٹ ڈالے جانے باقی ہیں۔ اس ساتویں مرحلہ کی انتخابی مہم اب اپنے عروج پر پہونچ چکی ہے اور آئندہ چند دنوں میں یہ بھی ختم ہوجائے گی ۔ اب تک جو چھ مراحل ہوئے ہیںان کی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ انتخابی تقاریر وزیر اعظم نریندر مودی نے کی ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریبا ہر تقریر میں منفی رویہ اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے ہندو ۔ مسلم کی سیاست کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کا حصہ سمجھنے سے عملا انکار کرتے ہوئے انہوں نے در انداز کہا ۔ جہادی کہا اور ان کے تعلق سے دوسرے طبقات میںخوف اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش بھی کی تھی ۔ انہوں نے تحفظات کے مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے پسماندہ طبقات کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کی کوشش کی جبکہ بی جے پی پر خود یہ الزام ہے کہ وہ دستور میں تبدیلی چاہتی ہے تاکہ پسماندہ طبقات کو ملنے والے تحفظات کو ختم کیا جاسکے ۔ وزیر اعظم نے اب بہار میں تقریر کرتے ہوئے اپوزیشن انڈیا اتحاد پر مسلمانوں کو خوش کرنے مجرا کرنے کا الزام عائد کیا ۔ مجرا لفظ جس پس منظر میں کیا جاتا ہے اس سے سبھی واقف ہیں اور وزیر اعظم نے پھر یہ ثابت کردیا کہ وہ ووٹ حاصل کرنے کسی بھی حد کو پھلانگنے سے گریز نہیں کرینگے جو افسوسنانک ہے ۔