پندرہویں فینانس کمیشن کی سفارشات سے ریاستی چیف منسٹر کے سی آر متفکر
حیدرآباد۔ مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے بجٹ میں ریاست تلنگانہ کو ہونے والے نقصانات میں سب سے اہم نقصان 15ویں فینانس کمیشن کی جانب سے کی جانے والی سفارش میں مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کئے جانے والے 2.47 کے ٹیکس آمدنی کے حصہ میں کمی کرتے ہوئے اسے 2.10کیا جانا ہے۔ 15ویں فینانس کمیشن کی جانب سے کی گئی اس سفارش پر عمل نہ کرنے کی ریاستی حکومت کی جانب سے کی جانے والی درخواست کو بھی مرکزی حکومت کی جانب سے نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ ریاستی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے بجٹ کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کی جانب سے اختیار کی جانے والی تدابیر کا جائزہ لیا اور اس بات کا اندازہ لگایاجارہا ہے کہ فینانس کمیشن کی جانب سے کی گئی سفارش پر عمل کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے جو ٹیکس کے حصہ میں کمی کا فیصلہ کیا ہے اس سے ریاستی حکومت کو آئندہ 5برسوں میں کم از کم 6000 کروڑ کانقصان ہوگااور ان نقصانات کی پابجائی کیلئے ریاست تلنگانہ کے پاس فوری طور پر کوئی منصوبہ نہیں ہے اور مرکزی نے اس اہم فیصلہ کے ساتھ کسی بھی پراجکٹ کیلئے بجٹ کی اجرائی کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی تخصیص نہیں کی ہے جو کہ تلنگانہ کے لئے انتہائی مایوس کن ہے۔ مرکزی بجٹ سے چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ شدید مایوسی اور حیرت کا شکار بنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ تلنگانہ کو مرکزی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے جس طرح دوسری ریاستوں کو فنڈ دیا گیا ہے اس طرح کا بھی کوئی فنڈ مرکزی بجٹ میں حاصل نہیں ہوا جس کے سبب مایوسی ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے مرکزی حکومت سے کی گئی نمائندگیوں میں ٹیکس کی آمدنی میں حصہ میں کمی کی سفارش کو نظرانداز کرنے اور موجودہ حاصل ہونے والے حصہ کو باقی رکھنے کی خواہش کی گئی تھی لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے اسے بھی نظرانداز کیا گیا جس کے نتیجہ میں تلنگانہ کو آئندہ 5برسوں کے دوران 6ہزار کروڑ یا اس سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے اور اگر ریاستی حکومت کے لئے کوئی علحدہ پیاکیج مرکزی حکومت سے حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ریاست تلنگانہ ملک کی مقروض ریاستوں میں شامل ہوجائے گی اورتلنگانہ کو اپنے قرضہ جات کی ادائیگی کیلئے مشکلات صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔مرکزی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جبکہ ریاستی حکومت کی جانب سے ریاست میں ملازمین کو پی آر سی کی اجرائی ‘ نئے تقررات کے علاوہ محکمہ جاتی ترقی دینے کے علاوہ ملازمین کی وظیفہ کی حد عمر میں اضافہ کے سلسلہ میں فیصلہ کیا جا رہاہے جو کہ ریاستی حکومت کے خزانہ پر اضافی مالی بوجھ عائد کرنے کا موجب ہے اور مدد کے بجائے مرکزکی جانب سے ریاست کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔