مستقبل کا عہد ‘ ماضی کے وعدے فراموش

   

وابستہ تیری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو تو نے فراموش کردیا
وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے یوم آزادی کے موقع پر آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے پانچ عہد کرنے پر زور دیا ہے ۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ آئندہ 25 برس کیلئے جب ہندوستان اپنی آزادی کے سو سال کا جشن منائیگا ملک کو ترقی یافتہ اور مستحکم بنانے کیلئے اپنے آپ سے پانچ عہد کریں اور ان پر عمل کیا جائے ۔ اس کے ذریعہ ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ ملک کو ترقی دینے اور مستحکم بنانے کیلئے عوام کو عہد کروایا جا رہا ہے ۔ انہیں اپنے فرائض کی یاد دہانی کرواتے ہوئے ملک کے تئیں ان کے فرائض پورے کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ ہر شہری کو اپنے ملک کی ترقی اور کامیابی کیلئے عہد کرنے کی ضرورت ہے اور ترقی میںاور ملک کو مستحکم بنانے میں اپنا رول ادا کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے ۔ نریندر مودی نے بحیثیت وزیر اعظم عوام کو یہ عہد کرواتے ہوئے اپنا فرض انجام دیا ہے اور انہوں نے سبھی کیلئے مشورے بھی دئے ہیں۔ تاہم ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ مستقبل کے عہد نامہ کے ساتھ انہیںماضی کے وعدوں کے تعلق سے بھی لب کشائی کرنے کی ضرورت تھی ۔ وزیر اعظم نے اب تک اس ملک کے عوام سے جتنے بھی وعدے کئے تھے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے یہ رپورٹ کارڈ پیش کرنے کی ضرورت تھی کہ ان وعدوں میں سے اب تک کتنے پورے کئے گئے ہیں اور کتنوں کو پورا کیا جانا باقی ہے ۔ ان کی تکمیل کیلئے ابھی کتنا وقت درکار ہوگا ۔ محض عوام کے کان خوش کرنے والی باتیں کرتے ہوئے حکومت اپنے فرائض سے بری نہیںہوسکتی ۔ اس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اگر اس نے ملک کے عوام سے کوئی وعدے کئے ہیں تو ان کو پورا کیا جائے ۔ عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ان کا آشیرواد حاصل کیا جائے ۔ مستقبل کے منصوبے بتاتے ہوئے حکومت عوام کو گمراہ نہیں کرسکتی ۔ مستقبل کے منصوبے یقینی طور پر اہمیت کے حامل ہیں لیکن ماضی کے وعدوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور ان وعدوں پر حکومت عوام کے سامنے جواب دینے کی پابند ہے ۔ آج لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم اپنے سابقہ وعدوں کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔
وزیر اعظم نے 2014کی انتخابی مہم کے دوران عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی تھی ۔ ہر سال دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ نوجوانوں نے اس وعدہ پر بھروسہ کیا تھا ۔ گذشتہ آٹھ سال میں 16 کروڑ افراد کو روزگار فراہم کیا جانا چاہئے تھا تاہم ابھی تک صرف چند لاکھ روزگار بھی فراہم نہیں کئے جاسکے ہیں۔ یہ ایک بڑا انتخابی وعدہ تھا جسے پورا نہیں کیا گیا ۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں رکھے ہوئے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ یہ وعدہ بھی صرف کاغذی اور زبانی ثابت ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہوگئی ہے کہ گذشتہ آٹھ سال میں پہلے سے زیادہ ہندوستانی دولت بیرونی ممالک میں کالے دھن کی شکل میں جمع کردی گئی ہے ۔ بیرونی بینکوں کے اعداد و شمار سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے ۔ وزیر اعظم نے ملک میں مہنگائی کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح 100 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ ہر شئے عوام کی رسائی سے اور قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہے ۔ پٹرول ‘ ڈیزل اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ ان کی وجہ سے دیگر اشیا کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اب تک چاول اور آٹے جیسی بنیادی ضروری اشیا کی قیمتوں پر جی ایس ٹی عائد کردیا گیا ہے ۔ عوام سے جو وعدہ کیا گیا تھا صورتحال اس سے بالکل الٹ ہوگئی ہے ۔ اس پر حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات کرنے کی بجائے نت نئے بہانے پیش کئے جاتے ہیں اور عوام پر بوجھ عائد کیا جاتا ہے ۔
وزیر اعظم نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ انہوں نے یہ خود سے عہد کیا ہے کہ 15 اگسٹ 2022 تک ملک میں کوئی بھی شہری بے گھر نہیں رہے گا ۔ ہر ایک کو پکا گھر فراہم کیا جائیگا۔ آج بھی ہندوستان میں کروڑوں لوگ بے گھر ہیںاور فٹ پاتھ پر زندگی گذارتے ہیں۔ آج کی تقریر میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ اپنے عہد کے مطابق وزیر اعظم نے اب تک کتنے گھر فراہم کئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی وزیر اعظم کی یہ تقریر ایک بار پھر صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہی اور عوام کیلئے اس میں کوئی امید دکھائی نہیں دی ہے ۔