مسلمانوں کو دھمکیوں کا رجحان

   

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا
دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو
دنیا بھر میں اکیسویں صدی کو ٹکنالوجی کی صدی کہا جارہا ہے اور دنیا تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہی ہے ۔ دنیا کی ترقی کے اس سفر میں ہندوستان بھی دیگر اقوام کے ساتھ شانہ بہ شانہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ ہندوستان ٹکنالوجی کے انقلاب کا ایک اہم مرکز بن کر بھی ابھر رہا ہے ۔ ایسے میں ملک میں معاشی ترقی کی رفتار بھی تیز ہو رہی ہے ۔ تاہم ملک میں ایک مختلف پہلو بھی ایسا ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی معنوں میں ترقی کو یقینی بنایا جاسکے اور ہندوستان کی دنیا بھر میں اجارہ داری کویقینی بنایا جاسکے ۔ آج ملک میں مختلف گوشوں کی جانب سے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے تعلق سے نفرت کو فروغ دینے کے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ سماج میں نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے ۔ دو بڑے طبقات کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس ملک میں یہ روایت رہی ہے کہ ہندو اور مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر طبقات بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بھی گہرے ہوا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں ساتھ ہوا کرتے تھے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرتوں کو پوری شدت کے ساتھ ہوا دی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر اترپردیش ‘ اتراکھنڈ اور دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ کہیں مسلمانوں کو حجاب کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں ٹوپی پہننے پر مار پیٹ کی جا رہی ہے ۔ کہیں ان کی غذائی عادات کی وجہ سے حملے کئے جا رہے ہیں تو کہیں محض چوری کے شبہ میں انہیں قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کئی شہروں میں مسلمانوں کو کھلے عام علاقہ چھوڑدینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ورنہ سنگین نتائج کا انتباہ دیا جا رہا ہے ۔ تازہ ترین واقعہ میں اترکھنڈ میں چمولی کے تاجروں نے فرقہ پرستی کی مثال پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو علاقہ کا تخلیہ کردینے کا انتباہ دیا ہے اور کہا کہ انہیںمکان کرایہ پر دینے والوں کو جرمانہ بھی کیا جائے گا ۔
پولیس اور دوسری ایجنسیاں اس طرح کے حساس اور انتہائی اہمیت کے معاملات میں بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاعلمی کا دعوی کر رہی ہیں۔ جب ان کے علم میں بھی یہ بات لائی جا رہی ہے تو محض ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس طرح کے بیمار ذہنیت رکھنے والے فرقہ پرست عناصر کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ حکومتیں اس معاملے میں کھلی چھوٹ دے چکی ہیں اور نہ پولیس کو کارروائی کیلئے کہا جا رہا ہے اور نہ ہی ایسے عناصر پر قابو کرنے کیلئے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ فرقہ پرست عناصر ترقی کے اس دور میں بھی فرقہ پرستی کی لعنت کو فروغ دیتے ہوئے ملک کی بدنامی اور رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سماج کے سبھی طبقات میں یکجہتی اور بہتر تعلقات کے ذریعہ ملک کی ترقی کی رفتار کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان کو کامیابی کی بلندیوں تک پہونچایا جاسکتا ہے ۔ ملک کے عوام ترقی کے ثمرات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کی ترقی کے باوجود 80 لاکھ خاندانوں کو مفت راشن کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ آج کئی خاندان خط غربت سے نچلی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کے پاس دو وقت کی روٹی بھی ٹھیک سے دستیاب نہیں ہے ۔ ایسے مسائل پر قابو پانے اور عوام کو درپیش حالات کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہیک ہ ترقی کے ثمرات میں عوام کو حصہ دار بنایا جائے اور ملک کی ترقی کی رفتار میں بھی اضافہ کیا جائے ۔ یہ سب کچھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے ممکن ہے ۔
جو عناصر ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں ان پر لگام کسنے میں کوئی رکاوٹ نہیںآنی چاہئے ۔ پولیس اور نفاذ قانون کی دوسری ایجنسیوں کو اس طرح کے معاملات میں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ذمہ داری دی جانی چاہئے کہ ایسی حرکتوں کے تدارک کیلئے سرگرم اقدامات کریں۔ ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ کسی ہندوستانی کو ملک کے کسی بھی حصے سے نکل جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوں کا بھی ملک میں اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے طبقات کا ہے ۔ اس حق کو یقینی بنانا حکومتوں اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے ۔