متحدہ آندھرا میں 9 مسلم ارکان، تلنگانہ میں 6 سے تعداد ایک ہوگئی، بی آر ایس کے اقلیتی قائدین مایوس
حیدرآباد۔ یکم؍ اگسٹ ، ( سیاست نیوز) عام طور پر انتخابات سے قبل حکومت کی جانب سے سماج کے ہر طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ الیکشن میں فائدہ ووٹ کی صورت میں حاصل ہو۔ کے سی آر حکومت نے دوسری میعاد کی تکمیل اور تیسری میعاد کی امید کے ساتھ مختلف طبقات کیلئے اعلانات اور تیقنات کا آغاز کردیا ہے۔ دلتوں، پسماندہ طبقات اور قبائیل کیلئے نئی اسکیمات متعارف کی گئیں لیکن اقلیت کے ساتھ ناانصافی کا رویہ باعث حیرت ہے۔ کیا بی آر ایس کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے؟ یہ سوال نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ بی آر ایس کے مسلم قائدین میں موضوع بحث بن چکا ہے۔ مسلمانوں کیلئے 12 فیصد تحفظات کا وعدہ تو پورا نہیں ہوا لیکن الیکشن سے عین قبل قانون ساز کونسل میں مسلم نمائندگی اضافہ کے بجائے کم ہوچکی ہے۔ گورنر کوٹہ کے تحت ایم ایل سی دو نشستوں کیلئے حکومت نے کل کابینہ کے اجلاس میں امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دی۔ جن امیدواروں کے نام طئے کئے گئے ان کا تعلق ایس ٹی اور بی سی طبقات سے ہے جبکہ جن دو ارکان کی میعاد ختم ہوئی ان کا تعلق مسلم اور عیسائی طبقات سے تھا فاروق حسین اور ڈی راجیشور راؤ کو دوبارہ موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی ان دونوں اقلیتی طبقات کے کسی تیسرے فرد کو کابینہ کونسل کیلئے نامزد کیا گیا۔ بی آر ایس کے اقلیتی قائدین کو امید تھی کہ دو نشستوں میں ایک مسلم اقلیت کو الاٹ کی جائے گی تاکہ کونسل میں مسلم نمائندگی میں کوئی کمی نہ آئے اور اقلیتوں کی ہمدردی و تائید حاصل ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کے سی آر خاندان کے افراد نے کونسل کی نشست کے تمام دعویداروں کو کسی نہ کسی طرح تیقن دیا تھا کہ ان کے نام پر غور کیا جائے گا۔ گذشتہ 9 برسوں میں قانون ساز کونسل میں مسلم نمائندگی کا جائزہ لیں تو اس میں بدستور کمی دیکھی جائے گی۔ متحدہ آندھرا پردیش میں قانون ساز کونسل کے جملہ ارکان کی تعداد 90 تھی جن میں سے 9 مسلم ارکان کونسل تھے۔ کانگریس سے محمد علی شبیر، فاروق حسین، محمد جانی اور حافظ پیر شبیر احمد کونسل کیلئے منتخب کئے گئے۔ تلگودیشم نے جناب ابراہیم بن عبداللہ مسقطی اور محمد سلیم کو کونسل میں جگہ دی تھی۔ ٹی آر ایس کے امیدوار محمد محمود علی کانگریس کی تائید سے کونسل کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ مجلس کے دو ارکان کونسل میں منتخب ہوئے۔ 90 رکنی کونسل میں 10 فیصد یعنی 9 مسلم ارکان موجود تھے۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد کونسل کی نشستوں کی تعداد گھٹ کر 40 ہوگئی جن میں 34 الیکشن کے ذریعہ اور 6 گورنر کوٹہ کے تحت نامزد کئے جاتے ہیں۔ علحدہ تلنگانہ ریاست میں کانگریس کے محمد علی شبیر کی میعاد ختم ہوگئی اور کانگریس کے پاس عددی طاقت نہیں تھی کہ اپنے امیدوار کو منتخب کرسکے۔ فاروق حسین نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی اسی طرح تلگودیشم سے محمد سلیم بھی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے میعاد کی تکمیل کے بعد محمد سلیم کو دوبارہ کونسل کیلئے منتخب نہیں کیا حالانکہ جو میعاد مکمل ہوئی وہ تلگودیشم کی عطا کردی تھی۔ کے سی آر نے فاروق حسین اور محمود علی کو دوسری مرتبہ کونسل کیلئے نامزد کیا۔ کانگریس کے سابق وزیر محمد فرید الدین کو ٹی آر ایس میں شمولیت کے بعد کونسل کی رکنیت دی گئی جن کی میعاد کی تکمیل کے بعد دوبارہ موقع نہیں دیا گیا۔ اسی طرح فاروق حسین کو بھی 27 مئی کو میعاد کی تکمیل کے بعد دوبارہ گورنر کوٹہ کیلئے نامزد نہیں کیا گیا۔ کونسل میں بی آر ایس کے مسلم ارکان کی تعداد فرید الدین اور فاروق حسین کی سبکدوشی کے بعد گھٹ کر صرف ایک ہوچکی ہے جو وزیر داخلہ محمود علی ہیں۔ ان کے علاوہ مجلس کے دو ارکان ہیں۔ کونسل میں جہاں متحدہ آندھرا میں 9 مسلم ارکان تھے علحدہ ریاست تلنگانہ میں یہ تعداد6 سے گھٹ کر بتدریج 3 ہوچکی ہے۔ اب جبکہ نومبر یا ڈسمبر میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوں گے کونسل میں نمائندگی کا مسلمانوں کیلئے کوئی موقع نہیں ہے۔ کونسل میں واحد نمائندگی اور اسمبلی میں بھی بی آر ایس کی مسلم نمائندگی عامر شکیل کی صورت میں صرف ایک تک محدود ہے۔ بی آر ایس کے اقلیتی قائدین حکومت کے اس رویہ سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دلت بندھو کے تحت 10 لاکھ روپئے کی امداد دی جارہی ہے جبکہ مسلمانوں کیلئے ایک لاکھ روپئے کی امدادی اسکیم کو ہر اسمبلی حلقہ میں 120 افراد کیلئے محدود کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد درخواست گذاروں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔