مسلمان آخر نئے سال کا جشن منائے تو کیسے!

   

ظفر آغا

نئے سال کی خوشیاں وہ منائے جس کی قسمت میں سال نو کی خوشیاں لکھی ہوں۔ ہندوستانی مسلمان کے لیے تو ہر سال بد سے بدتر ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہر نئے سال میں ایک نئی پریشانی اور مصیبت اس کو دبوچ لیتی ہے۔ مودی حکومت کا دار و مدار ہی مسلم منافرت اور مسلمان کے نام پر ہندوؤں کو اکٹھا کر کے ان کے ووٹ بٹورنے پر ہے۔ پھر یوں بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ چنانچہ ہر سال نو پر مودی حکومت مسلمانوں کے خلاف سماج میں زہر گھولنے کا ایک نیا نسخہ لے کر آتی ہے۔ سنہ 2020 میں این آر سی کا شور اور خوف تھا کہ جس سے ڈر کر مسلم عورتیں تقریباً سال بھر تک کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں پر بیٹھی رہیں۔ ابھی 2021 شروع نہیں ہوا تھا کہ بی جے پی نے مسلمانوں کی نیند اڑانے کو ’لو جہاد‘ کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس کو شوشہ نہ سمجھیے بلکہ یہ پوری جنگ کا اعلان ہے۔ نسخہ سیدھا ہے، ہندوؤں کے ذہن میں یہ خوف پیدا کیا جائے کہ مسلم لڑکے پہلے عشق کے نام پر ہندو لڑکیوں کو شادی پر راضی کرتے ہیں، پھر جب ہندو لڑکیاں عشق میں دیوانی ہو کر شادی کے لیے راضی ہو جاتی ہیں تو پھر مسلم لڑکے لڑکیوں کو تبدیل مذہب کیلئے مجبور کر کے ان سے شادی کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہندو سماج میں نفسیاتی طور پر دو طرح کے خوف پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اولاً تو یہ کہ ہندوستانی سماج میں آج بھی کسی بھی مذہب کی لڑکی دوسرے مذہب میں شادی کر لیتی ہے تو لڑکی کے ماں باپ کی اپنے سماج میں ناک کٹ جاتی ہے، اور وہ منھ دکھانے لائق نہیں رہتا۔ دوسرے یہ کہ اگر مسلمان لڑکے ایسے ہی ہندو لڑکیوں کو مسلمان بناتے رہے تو ایک دن ہندو قوم اقلیت میں بھی آسکتی ہے۔

یعنی بی جے پی نے ہندو سماج میں مسلم خوف پیدا کرنے کا نیا نسخہ ’لو جہاد‘ نکال لیا۔ تین ریاستوں یو پی، مدھیہ پردیش اور ہریانہ نے اس تعلق سے قانون بھی بنا لیے ہیں۔ محض اتر پردیش میں پچھلے ایک مہینے کے اندر تقریباً پچاس مسلم نوجوان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ ابھی یو پی کے میرٹھ شہر سے یہ خبر آئی کہ پولس ذرا ذرا سے شک پر مسلم گھروں میں گھس گھس کر نوجوانوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ اتر پردیش میں اس سلسلے میں مسلم بستیوں میں خوف کا عالم ہے۔ اگر کسی نے کسی ہندو لڑکی سے دس برس قبل بھی شادی کی تھی تو وہ مارے خوف کے اتر پردیش چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔ دراصل اتر پردیش میں سنہ 2022 میں چناؤ ہونے ہیں۔ یوگی حکومت ابھی سے غیر مقبول ہے۔ وہاں پولس راج ہے اور حکومت نے ہر کس و ناکس پر ظلم ڈھا رکھا ہے۔بی جے پی کو اندازہ ہے کہ اگر ان حالات میں چناؤ ہو گئے تو وہ ہار سکتی ہے۔ اس لیے ابھی سے مسلمانوں کا ہوّا کھڑا کر ہندو عوام کا ذہن یوگی حکومت کی نااہلی اور عوام کے مسائل سے ہٹانے کے لئے لو جہاد کا ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ابھی چناؤ کو کوئی ڈیڑھ برس کی مدت باقی ہے۔ ظاہر ہے کہ میڈیا کی مدت سے مسلم مخالف ماحول بنانے کے لئے محض یو پی ہی نہیں بلکہ اس کے پاس مدھیہ پردیش اور ہریانہ جیسے صوبوں میں بھی پولس لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں پر قہر ڈھائے گی اور چناؤ تک یہ قہر بڑھتا ہی چلا جائے گا۔یہ بات بھی بعید نہیں کہ آسام کی طرح یو پی میں بھی این آر سی کا معاملہ پھر کھڑا کر دیا جائے۔

لب و لباب یہ کہ سنہ 2021 ہی نہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ سنہ 2024 میں لوک سبھا چناؤ تک کبھی لو جہاد تو کبھی این آر سی جیسی قیامت اس ملک کے مسلمانوں پر ٹوٹتی رہے گی۔ بلکہ ان چند برسوں میں مسلم منافرت کا بازار روز بروز بڑی شدت سے گرم کیا جائے گا۔ مودی حکومت معاشی فرنٹ پر بری طرح ناکام ہے۔ ملک میں بے روزگاری کا بازار گرم ہے۔ لاک ڈاؤن نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ کچھ حالات تو بہتر ہوں گے، مگر پھر بھی معاشی حالات کوئی بہت سدھرنے والے نہیں ہیں۔ پھر نئے زرعی قوانین نے کسانوں میں مودی حکومت کو بدنام کر دیا ہے۔ کسان اس قدر غصہ ہیں کہ وہ شاہین باغ کی طرح دہلی کی سرحدوں پر کھلے آسمان کے نیچے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ کسانوں کی بنیادی مانگ ایم ایس پی اور منڈی والے معاملے پر پیچھے نہیں ہٹنے والی ہے۔ اس لیے اگر کسانوں اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتابھی ہے تب بھی دیہی علاقوں میں حکومت سے ناامیدی پھیلے گی۔ کسان کو یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ آج نہیں تو کل بڑے بڑے سرمایہ دار اس کی زمینیں کوڑیوں کے دام خرید کر اس کو اس کی آبائی زمین سے بے دخل کر دے گا اور اس طرح اس کی دو روٹی کا بھی سہارا ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ یہ واضح ہے کہ ہندو عوام میں پچھلے سات سالوں سے جو نریندر مودی کا جادو چلے جا رہا تھا، وہ جادو اب ٹوٹنے لگا ہے۔ کیونکہ زمینی حقیقت بہت تلخ ہے۔ کروڑوں افراد بے روزگار ہیں، کسان سڑکوں پر ہیں اور لاک ڈاؤن اور کورونا وبا کی وجہ سے پڑھائی لکھائی بھی چوپٹ ہے۔ ادھر معیشت بے حال ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں مودی حکومت اور خود نریندر مودی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئے گی۔ اب ان حالات میں نریندر مودی کے پاس صرف اور صرف مسلم منافرت کو تیز سے تیز تر کرنے کے علاوہ چناؤ جیتنے کا کوئی اور نسخہ نہیں بچا ہے۔ اس لیے صرف سنہ 2021 ہی نہیں بلکہ اب سنہ 2024 تک اس ملک پر آئے دن نت نئی قیامت ٹوٹے گی۔ ایسے میں بھلا اس ملک کا مسلمان نئے سال کا جشن منائے تو منائے کیسے!