مسلمان انشورنس کروالیں، اسپورٹس اکیڈیمی قائم کریں اور پاکستانی علماء کی تقاریر کا بائیکاٹ کرنا ضروری

   

شادی خانے اُمت کے زوال کا سبب، اسلامی سال قربانی سے شروع اور قربانی پر ختم ہوتا ہے: خطیب شاہی مسجد

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔30اگسٹ۔ اسلامی سال کی ابتداء اور اور اختتام دونوں ہی قربانیوں کا درس دیتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے قربانی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اگر صحابہؓ کی زندگی کو درس سمجھا جاتا ہے تو ان کی موت بھی ایک عظیم درس ہے۔ باضمیر مسلمان گذرنے والے اسلامی سال میں ہونے والی غلطیوں کا محاسبہ کریں اور آئندہ سال کے لئے خود کو تیار کریں ۔ مسلم سرمایہ کارو ںکی کروڑہا روپئے کی شادی خانو ںمیں سرمایہ کاری زوال امت کا سبب ثابت ہورہی ہیں۔ مسلمان اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں اور اسپورٹس اکیڈمی کے جال پھیلائیں۔ اختلافات میں الجھنا بند کریں اور اپنے ملک کو تباہ کرنے والے پاکستانی علماء کی تقاریر کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے ملک میں شرانگیزی کا ماحول پیدا نہ کریں ۔ ملک کے موجودہ حالات میں ہندستانی مسلمان اپنی جان ومال کا انشورنس کروائیں اور غیر مسلم غالب آبادیوں میں رہنے والے اپنے دینی بھائیوں کی تجارت اور ان کی جانو ںکے انشورنس کو یقینی بنائیں۔ مولانا احسن بن محمد عبدالرحمن الحمومی خطیب و امام شاہی مسجد باغ عامہ نے آج نماز جمعہ سے قبل اپنے فکر انگیز خطاب کے دوران کئی موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے امت مسلمہ کو حالات سے خوفزدہ نہ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ خوف تو اس بات کا ہونا چاہئے کہ ہم کس حد تک غافل ‘ بے غیرت اور بے ضمیر ہوچکے ہیں۔ انہوں بتایا کہ مسلم سماج کے کروڑپتی اور متمول خاندان و افراد کو دولتمند نہیں تصور کیا جائے گا بلکہ انہیں بھکاری اور جاہل قوم کے دولت مند کہا جائے گا ۔انہوں نے معاشرہ کے متمول طبقہ کو اسپورٹس اکیڈمی اور تعلیمی اداروں کے قیام کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آج امت کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ صحت ‘ تعلیم اورتحفظ کی ضرورت ہے اور تعلیم اداروں کے ذریعہ ممکن ہے جبکہ صحت اور تحفظ اسپورٹس اکیڈمی کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ مولانا احسن الحمومی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے امت میں احساس اور شعور پیداکیا تھا لیکن اب انتہائی اعلی ظرف نبی کی امت کا شمار کم ظرف میں ہونے لگا ہے ۔ انہو ںنے اسلامی سال کے آخری مہینہ میں حضرت اسمعیل ؐکا جذبہ ٔ ایثار و قربانی کے ایام ختم ہوتے ہی 18 ذی الحجہ پہنچتی ہے جس دن امیر المومنین حضرت عثمان ابن عفان ؓ کی شہادت ہوئی اسی طرح اسلامی نئے سال کی شروعات محرم الحرام سے شروع ہوتی ہے اور یکم محرم الحرام کو خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن خطاب ؓ کی شہادت ہوئی اور اسی ماہ کے دوران خانوادۂ رسول کو ایک ایک کرکے قربان کیا گیا اور نبی ﷺ کے گھرانہ نے یہ قربانی پیش کرتے ہوئے امت کے حوصلہ میں اضافہ کیا۔ خلافت راشدہ کے دور میں دو خلفائے راشدین کو شہید کیا گیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ نے دنیا میں پھولوں کی سیج نہیں رکھی ہے بلکہ دنیا مومن کے لئے کانٹوں کا تاج ہے اور شہادت کی موت مسلمان کیلئے طرۂ امتیاز ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ دنیا طاقت ور کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے اور اور دنیا کا یہ اصول ہے کہ کمزوروں کا سودا کیا جاتا ہے اس بات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو سمجھنا ناگزیر ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس جب حضرت عمرؓ پہنچے اور مشرف بہ اسلام ہوئے تو حضرت امیر حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کی طاقت اسلام کے پاس جمع ہوئی اور مسلمانوں نے دارالارقم سے نکل کرکعبۃاللہ میں اعلانیہ نماز ادا کی ۔مولانا احسن الحمومی کروڑہا روپئے کے شادی خانوں کی تعمیر اور ان میں لاکھوں روپئے اداکرتے ہوئے تقاریب منعقد کرنے کے عمل کو امت کی بے ضمیری اور غفلت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ایسے میں ہم اختلافی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنی نسلوں کو بے ضمیری کی تعلیم دے رہے ہیں۔خطیب شاہی مسجد نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوران امت کے سرمایہ دار طبقہ سے اپیل کی کہ وہ قوم کی پست ہمتی کو دور کرنے کیلئے اپنی دولت کا استعمال کریں اور مسجدیں بنانے کے بجائے مسجدوں کی حفاظت کرنے والے پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے مساجد کو قانونی طور پر تعمیر کردہ بنانے کے دستاویزات یکجا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اب ضرورت مسجدیں بنانے کی نہیں مسجدوں کو بچانے کی ہے ۔ خطیب شاہی مسجد نے کہا کہ 10محرم الحرام کوخاندان نبوت کے مرد‘عورت‘ بچہ ‘ بچی غرض ہر کسی کی قربانی کا مقصد امت کو حوصلہ دینا اور حق پر ڈٹے رہنا ہے۔انہو ںنے محبتوں کو پھیلانے والے بننے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ نفرتیں پھیلانے والے نفرتیں پھیلائیں گے لیکن محبتوں کے فروغ کے لئے اللہ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے۔ انہوںنے بتایا کہ ہندستان میں مسلمانوں پر مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم نہیں ہورہا ہے بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں کسی پر ظلم ہورہا ہے وہ کمزور ہونے کے سبب ہورہا ہے اسی لئے کمزوری کو دور کریں طاقتور بنیں اور حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کے مددگار بننے کی حکمت عملی اختیار کریں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے دعوت دین سے قبل جو اپنی شناخت بنائی وہ یہی تھی ہر یتیم ‘ بیوہ اور مظلوم نبیﷺ سے انصاف کی توقع رکھتا اور اب ضرورت ہے کہ ہم اس نبی کی امت ہیں یہ ثابت کریں اور مظلوموں کی مدد اور ظالم کے رد کے ذریعہ اس تحریک کو فروغ دیں۔ انہو ںنے پاکستانی علماء کی تقاریر کے بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہندستان کے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں اسی لئے بے بنیاد تبصرہ کرتے ہوئے اپنے عوام کو خوش کر رہے ہیں۔