مسلمان حاشیہ پر کیوں؟

   

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے
اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ جس وقت سے مرکز میں نریندرمودی کی زیر قیادت حکومت 2014 میں تشکیل پائی تھی اس کے بعد سے ہندوستان بھر میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ کئی گوشے اس معاملے میں متحرک ہوگئے تھے جو لگاتار مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی مودی حکومت ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ ان کی راست یا بالواسطہ طور پر مدد کی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے ہیں اور اب وہ کھلے عام قانون اور دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھڑلے سے ایسے اعلانات کر رہے ہیں جیسے اقتدار اور حکومت ان ہی کے ہاتھ میں ہو۔ وہ جو چاہیں اور جب چاہیں فیصلے کرسکتے ہیں اور ان کے فیصلے سارے ملک کیلئے لازمی ہونگے ۔ گذشتہ 11 برس میں ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا ہوگیا ہے جس میں مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے امتیازی رویہ کو فروغ دیتا ہے ۔ 2014 کے بعد سے ملک میں قومی سطح پر اور ریاستوں میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ہر بار مسلمانوں کی قانون ساز اداروں میں نمائندگی منظم انداز میں گھٹائی گئی ہے ۔ ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے ۔ جہاں کہیں مسلمان برسر روزگار ہیں ان کے روزگار کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ پر لا دیا گیا ہے ۔ ان کے اقلیتی موقف کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو اقلیتی طلباء کو تعلیمی اسکالرشپس تک بند کردئے گئے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر کام کیا جا رہا ہے اور ملک تیز رفتار سے ترقی کر رہا ہے ۔ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو تعلیمی ‘ سیاسی اور معاشی ذرائع سے محروم کرتے ہوئے حق تلفی کی جا رہی ہے اور ملک کی ترقی کے دعوے کئے جا رہے ہیں جو مضحکہ خیز ہی کہے جاسکتے ہیں۔ اس صورتحا ل کو دنیا بھر میں بھی محسوس کیا جانے لگا ہے اور اس پر مختلف گوشوںسے تبصرے بھی کئے جا رہے ہیں ۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے بھی جو تازہ ترین رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منظم انداز میں ناانصافیاں ہو رہی ہیں۔ ان سے امتیاز برتا جا رہا ہے اور انہیں حاشیہ پر لا کھڑا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اشتراک کے ذریعہ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت والا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ ملک میں قومی سطح پر اور کئی ریاستوں میں اس طرح کے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ اقلیتوں کو اپنی مذہبی آزادی برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور وہ گھٹن محسوس کرنے لگے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے دستور میں مذہبی و اعتقاد کی آزادی کی گنجائش فراہم کئے جانے کے باوجود ملک کے سیاسی نظام میں امتیاز کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور اس کا شکار ملک کی مذہبی اقلیتیں بن رہی ہیں۔ رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے گٹھ جوڑ نے ہندو نیشنلسٹ گروپ کی شکل اختیار کرلی ہے اور شہریت سے لے کر تبدیلی مذہب تک اور گاؤ ذبیحہ تک متنازعہ قوانین تیار کئے گئے ہیں ۔ ان کو مذہبی اقلیتوں پر لاگو کیا جا رہا ہے اور ان کیلئے مذہبی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے اور پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں مسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتیں گھٹن محسوس کر رہی ہیں اور ان میں ایک طرح کا عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا ہونے لگا ہے ۔ امریکہ کے مختلف کمیشن پہلے بھی ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر اپنی ناقدانہ رپورٹس جاری کرچکے ہیں ۔
امریکی کمیشن کی رپورٹ کو وزارت خارجہ کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے اور باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو حاشیہ پر لاکھڑا کرنے کی کوششیں پورے منظم انداز سے کی جا رہی ہیں اور ان میں تیزی پیدا کردی گئی ہے ۔ مسلمان ملک کی مذہبی اقلیت ضرور ہیں لیکن یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت بھی ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ تقریبا 20 کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو بیک وقت سلب نہیں کیا جاسکتا ۔ ملک کی ترقی اور ہمہ جہتی پیشرفت کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے اور ان کو نشانہ بنانے یا ان کے حقوق سلب کرنے کی کوششوں کو ترک کیا جائے ۔ ملک کی ترقی سماج کے ہر طبقہ کی ترقی سے مربوط ہے اور کسی بھی برادری کو الگ تھلگ نہیں کیا جانا چاہئے ۔
یوکرین جنگ کے خاتمہ کی کوشش
امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے اب یوکرین جنگ ختم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کا اشارہ دیا ہے اور جنگ بندی کیلئے ایک معاہدہ کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے ۔ یہ مسودہ یوکرین کے صدرکو پیش کردیا گیا ہے جس کے بعد وہ الجھن کا شکار ہوگئے ہیں۔ صدریوکرین ولودومیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ اب یوکرین کے سامنے مشکل گھڑی ہے کیونکہ اگر وہ اس معاہدہ کو تسلیم کرلیتا ہے تو اس کی اپنی عزت نفس اوریوکرین کا وقار داؤ پر لگ جائے گا اور اگر اس معاہدہ کو مسترد کیا جاتا ہے توامریکہ کی صورت میں ایک دوست ملک سے محروم ہونا پڑے گا ۔ جو معاہدہ تیار کیا گیا ہے اس کے مطابق یوکرین کو اپنی وسیع اراضی روس کے سپرد کرنی ہوگی اور اپنی افواج کی تعداد میں بھی کٹوتی کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ یوکرین کیلئے دونوں ہی صورتوں میں نقصان کا سامنا ہوگا اور اسی بات سے زیلنسکی فکرمند ہیں۔ جہاں تک ٹرمپ کی بات ہے تووہ اپنے منصوبہ میں کسی رد و بدل کی بجائے ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرتے ہیں اور وہ کمزور کو مزید دبانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ زیلنسکی کیلئے وقت بھی بہت محدود ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ جنگ بندی کی کوششیں کیا رنگ لاتی ہیں ۔