نئی دہلی۔بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کی 1500اسکوئر میٹراراضی کے 70سالہ قدیم دعویداری معاملہ جو 2.77ایکڑ متنازعہ اراضی کاحصہ ہے جس کو 1992میں مسجد کی شہادات کے بعد 1993میں مرکز نے اپنی تحویل میں لے لیاتھا اس پر ہفتہ کے روز مرکز مسلم اور ہندو مرکزی فریقین نے اپنی قطعی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی ہیں۔
یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کراس اپیل دائر کرنے کے عمل اب برخواست ہوگیا ہے جو مرکزی پارٹیاں گوپال سنگھ ویشوارھ(1950)‘ نرموہی اکھاڑہ(1959)‘ سنی وقف بورڈ(1961)‘اور اگلے ساتھی کے حوالے سے (1989)میں رام للا نے دائر کی تھی‘ جس کے متعلق ستمبر 30سال2010کو الہ آبا د ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مذکورہ
اراضی کو تین حصوں میں مساوی انداز میں تقسیم کردیاتھا‘ جو رام للا‘نرموہی اکھاڑہ او رسنی وقف بورڈ پر مشتمل ہیں۔
مسلم فریقین نے مہر بندلفافے میں اپنے درخواست دائر کی ہے۔
ذرائع نے کہاکہ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ گوہار لگائی ہے کہ ساری متنازعہ اراضی ان کے حق میں جاری کی جائے تاکہ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کی جاسکے جس کو ”غیرقانونی طریقے سے ہائی کورٹ او رسپریم کورٹ کی جانب سے دئے گئے جوں کا توں رکھنے کے احکامات کی خلاف ورزی کے ساتھ منہدم کردیاگیا تھا‘
او ریہ یوپی حکومت کی سکیولر حکمرانی اور دستوری رائے کی بھی عین خلاف ورزی کے تحت کیا گیا کام ہے“اور اس کے ذریعہ سکیولرازم کی برقراری کی مثال پیش کی جائے۔
وی ایچ پی نے اپنی اگلے دوست کے ذرائع دائر کردہ درخواست میں مذکورہ متنازعہ مقام کو ہندوؤں کے لئے نہایت مقدس قراردیا ہے۔جبکہ نرموہی اکھاڑی نے رام جنم بھومی اور جہاں پر مورتی نصب ہے اس پر اپنا دعوی پیش کیاہے۔
اپنی درخواست میں انہوں نے اے ایس ائی کے ان شواہد کا بھی حوالہ دیا جو منہدم مسجد کی کھدوائی کے وقت برامد ہوئے ہیں۔
گوپال سنگھ ورشاد ایڈوکیٹ نے کہاکہ مسلمانوں نے آخری مرتبہ بابری مسجد میں 16ڈسمبر1949کو نماز ادا کی تھی او راس کے بعد سنی وقف بورڈ نے مقدمہ دائر کیا18ڈسمبر1961کے روز یعنی بارہ سال بعد‘ تب تک وقت گذر چکاتھا