38,476 دلتوں کے بینک کھاتوں میں 3847 کروڑ روپئے جمع ہوگئے۔ مسلمانوں کی اب قدر نہیں رہی
حیدرآباد ۔ 20 ستمبر (سیاست نیوز) ریاست میں ٹی آر ایس حکومت سماج کے تمام طبقات کے ساتھ انصاف کرنے اور گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کا دعویٰ کر رہی ہے ۔ مگر حقیقت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے کوئی انصاف نہیں کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے بغیر سنہرے تلنگانہ کا جو خواب دیکھا جارہا ہے ، اس کی تعبیر ممکن نہیں ہے ۔ دو ماہ قبل اقلیتی نوجوانوں کو خود روزگار فراہم کرنے کیلئے اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو 50 کروڑ روپئے جاری کرنے کا اعلان کیا گیا مگر آج تک رقمی اجرائی نہیں ہوئی ہے ، جس کا مسلمان بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب دلت بندھو اسکیم کے تحت 600 کروڑ روپئے جاری کردیئے گئے ہیں۔ 600 کروڑ روپئے کی اجرائی کیلئے ایک منٹ بھی سوچا نہیں گیا مگر مسلمانوں کو 50 کروڑ کی اجرائی کیلئے 60 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ نہ جانے ابھی مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا ۔ حضور آباد اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب کے موقع پر چیف منسٹر کے سی آر نے دلت طبقات کی تائید حاصل کرنے کیلئے دلت بندھو اسکیم کا اعلان کیا تھا ۔ تاحال فی کس 10 لاکھ روپئے کے حساب سے تلنگانہ کے 38,476 دلتوں کے بینک کھاتوں میں حکومت کی جانب سے 3,847 کروڑ روپئے جمع کرائے گئے ہیں اور سب سے زیادہ اسمبلی حلقہ حضور آباد میں 18,211 دلتوں کے کھاتوں میں فی کس 10 لاکھ روپئے جمع کرائے گئے ہیں۔ اگر حکومت کی جانب سے دلتوں کو ترقی دی جارہی ہے تو مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر مسلمانوں کو نظر انداز کرنے پر شکایت ضرور ہے۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد چیف منسٹر کے سی آر نے مسلمانوں کی تعلیمی معاشی اور سماجی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سدھیر کمیشن تشکیل دیا تھا ۔ سدھیر کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی حالت کو دلتوں سے بدتر بتایا تھا ، امید کی جارہی تھی چیف منسٹر ریاست کے مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اور عملی اقدامات ضرور کئے جائیں گے مگر حکومت کی کارکردگی سے مسلمان مطمئن نہیں ہے ۔ اقلیتی بجٹ کو 2000 کروڑ سے گھٹاکر 1500 کردیا گیا اور ان 8 سال کے دوران کبھی بھی مکمل بجٹ جاری نہیں کیا گیا ۔ دلت بندھو کے طرز پر اقلیتی بندھو اسکیم متعارف کرانے کا وعدہ کیا گیا ۔ گریجن بندھو اسکیم کا اعلان کیا گیا پھر مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا ۔ دلت طبقات کو دلت بندھو اسکیم کے تحت فی خاندان کو 10 لاکھ روپئے جاری کئے جارہے ہیں، ابھی گریجن بندھو کا بھی اعلان کیا گیا ہے مگر اقلیتوں کو ایک لاکھ اور 2 لاکھ روپئے سبسیڈی قرض کی اجرائی کیلئے تلنگانہ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو 50 کروڑ روپئے جاری کرنے کا اعلان کیا گیا مگر ابھی تک اس کی اجرائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔ کیا یہ مسلمانوں سے ناانصافی نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔ مسلم قیادت خاموش ہے ، حکمران جماعت کے اقلیتی قائدین خاموش ہیں، محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار خاموش ہے یا ان کی نمائندگیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ جب مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی کو حکومت تک پہنچانے کی ذمہ داری روزنامہ سیاست نے قبول کی ہے، ایک طرف حکومت اور سرکاری مشنری کو جھنجھوڑا جارہا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں سے ناانصافی ڈبل بیڈروم مکانات کی فراہمی میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا جارہا ہے۔ دیگر سرکاری اسکیمات میں برائے نام نمائندگی ، 12 فیصد مسلم تحفظات کو فراموش کردیا گیا ۔ ضلع ہیڈکوارٹرس میں منی حج ہاؤز تعمیر کرنے کے وعدوں کی خلاف ورزی اس طرح تمام شعبوں میں مسلمانوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے حکومت یا ٹی آر ایس جماعت کے پاس اب مسلمانوں کی قدر ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو نظر انداز کر کے دیگر طبقات کو قریب کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ن