مسلم لڑکیوں کی بے دینی کے ذمہ دار کون؟

   

محمد امام تحسین
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔ (سورۃ التحریم۔۶)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’آدمی اپنے گھروالوں کا نگران ہے اور اس سے رعیت (گھروالوں) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے گھر خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اپنی رعیت (گھروالوں) کے بارے میں پوچھ تاچھ ہوگی‘‘۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف میں معاشرہ کے ہر شخص کو آگاہ کیا گیا ہے، خواہ وہ حکمراں ہو یا عام آدمی، حتی کہ گھر میں رہنے والی خواتین کو بھی کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں اپنے فرائض ادا کریں اور اللہ کے پاس جوابدہی کا خوف رکھیں۔ والدین چوں کہ گھر کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اس لئے ان سے ان کی اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا۔ لیکن بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ کچھ برسوں سے مختلف اخبارات اور باوثوق ذرائع سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ہمارے بعض مسلم والدین کی غفلت اور دین سے دوری کی وجہ سے ان کے بیٹے اور بیٹیاں غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ’’دام عشق‘‘ کی بیماری میں ملوث ہوکر اور پھر اس کے بعد شادی کرکے اپنا گھر جہنم میں بنا رہے ہیں۔ اس کے باوجود والدین کو اس بات کا احساس نہیں کہ ان کی اولاد آخرت کے خطرناک اور ابدی عذاب اپنے لئے لازم کر رہی ہیں۔ان حالات میں مسلمانوں کی دین سے دوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، تاہم قوم کا درد رکھنے والے مسلمان ان واقعات سے بے چین ہوکر مسلم لڑکیوں، اسلام دشمن طاقتوں اور جہیز کی لعنت کو ملزم قرار دے رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ صحیح ہو سکتی ہیں، لیکن اس کی بنیادی وجہ پر غور کرنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے، تاکہ اس مرض کا صحیح علاج کیا جاسکے اور ہم سورہ انفال کی روشنی میں زندگی گزارسکیں۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ’’تاکہ جو ہلاک ہو دلیل پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زندہ رہے‘‘۔ (سورہ انفال۔۴۹)
مسلم لڑکیوں کی والدین سے بغاوت، غیروں کے ساتھ تعلقات اور جنسی بے راہ روی کی اصل وجوہات کچھ اس طرح ہیں:٭ دین اسلام یعنی قرآن و سنت اور آپﷺ کی تعلیمات سے دوری۔٭ مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کی کمی۔ نماز کی پابندی میں کوتاہی۔٭ غیر شرعی نظام تعلیم۔٭ مختلف شعبہ ہائے حیات میں مردوں اور عورتوں کا میل جول۔ اسی طرح تفریحی مقامات پر کھلے عام بے حیائی کے مناظر، جسے دیکھ کر آنکھیں شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔٭ گھریلو ماحول، شرم و حیا اور اخلاق کو تباہ کرنے والے ٹی وی سیریلس۔٭ والدین کی جانب سے بچوں کو ٹی وی سیریلس، فلم بینی اور آزاد کلچرل کے لوگوں کے ساتھ دوستی کی آزادی۔آج ہمارے بچوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ اسلام کیا ہے؟، ہم مسلمان کیوں ہیں؟، اسلام اور دیگر مذاہب کی تعلیمات میں بنیادی فرق کیا ہے؟۔
ہماری غیرت مند بہنیں اس بات کا تصور کرسکتی ہیں کہ جس شخص سے نکاح کرنا اللہ رب العزت نے حرام قرار دیا ہے، اس سے شادی رچائی جائے اور پھر جنت کی امید بھی رکھی جائے؟۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی خراب بات ہوسکتی ہے کہ کسی کو ایک لہلہاتے باغ اور نہایت آرامدہ جگہ سے نکال کر اسے دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے۔ لہذا اگر کوئی مسلم لڑکا یا لڑکی خود کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہے تو شرعی احکامات پر عمل آوری ہی ان کے لئے نجات کا واحد راستہ ہے۔ کسی غیر مسلم (مشرک) سے نکاح کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو مت دو، جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۲۱) فرمایا ’’اور مشرک مردوں اور غیر مسلم مردوں کے لئے یہ مؤمنہ عورتیں حلال نہیں اور غیر مسلم مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں‘‘ (سورۃ الممتحنہ۔۱۰) ان دو آیات کی روشنی میں کوئی بھی مسلم لڑکا یا لڑکی، کسی غیر مسلم لڑکا یا لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتے، لیکن ایک صورت اللہ تعالی نے رکھی ہے اور وہ ہے ’’ایمان‘‘۔ اگر وہ ایمان والے ہو جائیں تو ان سے شادی کی جاسکتی ہے (وہ بھی مضبوط ایمان والے، صرف شادی کے لئے ایمان نہیں) علاوہ ازیں اگر کوئی مسلم لڑکا یا لڑکی آپس میں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں تو ان کے لئے شریعت نے شادی کا راستہ بتایا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ’’دو چاہنے والوں کے لئے شادی سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)