مسلم معاشرہ میں قتل و خون کے واقعات

   

موجودہ دَور میں احترامِ انسانیت کے بلند بانگ دعوے، دنیا کے ہر گوشے سے ہو رہے ہیں۔ احترام آدمیت سے متعلق نت نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، ادنیٰ سی حقارت و توہین پر سخت سزاؤں اور بھاری جرمانوں کے قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں۔ بلالحاظ رنگ و نسل اور بلاامتیاز مذہب و ملت ساری انسانیت کے اکرام کی باتیں کی جا رہی ہیں، لیکن عملی طورپر ان قوانین اور اعلانات کو پرکھا جائے تو نتیجہ برعکس نظر آتا ہے۔ تہذیب و تمدن پر فخر و ناز کرنے والی دنیا سب سے زیادہ قتل و خون کی مرتکب ہے۔ نسلی امتیاز رگ و پَے میں پیوست ہے۔ اظہار برتری و انتقامی جذبات میں انسانی حدود کو پار کر گئی ہے۔ مفادات و مصالح کے پیش نظر برسہا برس سے جاری ظلم و زیادتی سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ ظالم و سفاک کی بھرپور مدد اور اندرونی تائید و حمایت جاری ہے۔
ساری دنیا میں کسی قانون نے احترام انسانیت کا حقیقی درس دیا ہے تو وہ صرف اسلامی قانون ہے، جس نے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام دیا ہے اور خون انسان کی حرمت و پاسداری کا سب سے اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’جس نے کسی ایک انسانی جان کو جان کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد کے ذریعہ قتل کیا، گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا۔ اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے ساری انسانیت کو حیات بخشی‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔۲۳)
اسلام کے نزدیک ہر انسان کی اہمیت ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی، عیسائی ہو یا مجوسی، بت پرست ہو یا زرتشتی، کسی بھی مذہب و دین سے وابستہ ہو، کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو، امیر ہو یا غریب، حاکم ہو یا محکوم، سیاہ فام ہو یا سفید، سارے انسان بلالحاظ مذہب و ملت اور بلاامتیاز رنگ و نسل برابر و مساوی ہیں۔ انسانی حقوق میں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت و فوقیت نہیں دی گئی، بلکہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’اگر سارے اہل زمین و آسمان کسی ایک مؤمن کے خون میں شریک ہوں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان سب کو دوزخ کی آگ میں جھونک دے گا‘‘۔ (ترمذی)
ایک طرف ساری قومیں مسلم خون کی پیاسی ہیں تو دوسری طرف مسلمان خود آپس میں دست بگریباں ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر نزاعات و اختلافات کا شکار ہیں۔ ادنیٰ سی چیز کے لئے ایک دوسرے کا قتل و خون کرنے پر آمادہ ہیں۔ دشمنی کی معمولی سی چنگاری کو بجھانے کے لئے مسلمان کا قتل کیا جا رہا ہے۔ کس قدر جہالت، درندگی، حیوانیت اور سفاکی مسلم معاشرہ میں بڑھتی جا رہی ہے؟۔ وہ قطعاً اللہ کے فرمان کو بھول گئے ہیں کہ ’’جو آدمی کسی مؤمن کو عمداً قتل کرے گا تو اس کا بدلہ جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اس پر ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۳۹)
حضور نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا، اس کا ایک ایک جز ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا ’’یقیناً تمہارے خون، تمہارے اموال، تمہاری عزت و ناموس، تمہارے اس ماہ، تمہارے اس شہر، تمہارے اس دن کی حرمت کی مانند حرام ہیں، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو۔ سنو! کیا میں نے پہنچا دیا؟‘‘۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا ’’ہاں‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’اے پروردگار! تو گواہ رہ۔ اور حاضر شخص غائب کو پہنچا دے۔ بسا اوقات جس کو پہنچایا جاتا ہے، وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ کرنے والا ہوتا ہے، پس تم میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مارکر کافر مت ہو جاؤ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج)
واضح باد کہ قتل کا گناہ ایسا سنگین ہے کہ قیامت کے دن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سب سے پہلے قتل سے متعلق فیصلہ فرمائے گا۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’تم کسی نفس کو ناحق قتل مت کرو، جس کی اللہ کے پاس حرمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس بات کی وصیت کی ہے، تاکہ تم سمجھ سکو‘‘۔ (سورۃ الانعام۔۱۵۱)
اگر کوئی شخص اس حد تک گرجائے کہ وہ کسی انسان کے قتل ناحق کا مرتکب ہو جائے تو اس نے ایسی سنگین غلطی کی ہے کہ جس کے پاداش میں اس کا قصاصاً قتل کیا جائے گا، یعنی ایسا مجرم جینے کے قابل نہیں ہے۔ قصاص میں قتل کئے جانے کی سزا بظاہر سخت معلوم ہوتی ہے، جب کہ درحقیقت اس میں حیاتِ انسانی کی بقاء ہے۔ قتل کا ارادہ کرنے والا جب اپنے ہولناک انجام پر غور کرے گا تو قتل سے رُک جائے گا، جس کی وجہ سے ایک شخص قتل ہونے سے بچ جائے گا اور قاتل قصاص میں قتل ہونے سے محفوظ رہے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے قرب قیامت میں قتل و خونریزی کے عام ہونے کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ’’زمانہ قریب ہوجائے گا، علم گھٹ جائے گا، بخالت بڑھ جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے اور ’’ہرج‘‘ کی کثرت ہو جائے گی‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! ’’ہرج‘‘ کیا ہے؟‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’قتل، قتل‘‘۔ (بخاری، کتاب الفتن)
آج حضور اکرم ﷺکی پیشین گوئی کی حقانیت و صداقت کو ساری دنیا محسوس کر رہی ہے، ہر طرف خونریزی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، قتل و خون کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں، دنیا کا ہر حصہ خون انسانی سے آلودہ ہے، اسلام دشمنی کی تیز و تند آندھیاں چل رہی ہیں، خون مسلم سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، ظالم و جابر اور سفاک دشمن طرب و سرود کی محفلیں سجا رہے ہیں، لیکن ان کو پتہ نہیں کہ ایک مسلمان کے سینے میں چھپے ایمان کی کیا حرمت ہے اور ایک مسلمان کے قتل کے مقابل ساری دنیا کا زوال پزیر ہوجانا ہیچ ہے۔ حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’کسی مؤمن کو قتل کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے زوال سے زیادہ عظیم ہے‘‘۔
(سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، باب تعظیم الدم)