مسلم نوجوان ‘ منشیات اور تباہی

   

چند لمحوں کی خوشی آکے چلی جاتی ہے
جان چھوٹی نہ مری غم کی گراں باری سے
منشیات ویسے تو سارے ملک کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ منشیات کا استعمال نوجوانوں میں بہت تیزی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ نوجوان اس لعنت کا لگاتار شکار ہوکر اپنے لئے ‘ اپنے اہل خانہ کیلئے اور سارے معاشرہ کیلئے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومتوں اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے بھی لگاتار منشیات کی خرید و فروخت اور ان کے استعمال کے خلاف کارروائیوں کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لعنت کم ہونے یا ختم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم نوجوان بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں حیدرآباد شہر میں قتل و خون کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بھی سستے نشے اور بے راہ روی والی زندگی کا نتیجہ ہی تھا ۔ اس کے خلاف بھی پولیس کی جانب سے کارروائیاں شروع ہوئی ہیں تاہم یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ کئی نوجوان جو قتل ہوئے ہیں یا جنہوں نے قتل کیا وہ بھی نشہ کے عادی بتائے گئے تھے ۔ کم خرچ میںسستا نشہ بھی دستیاب ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ آسانی سے اس لعنت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہی ہے کہ شہر کے پبس ‘ بارس اور دیگر عیاشیوں کے اڈوں پر بھی مسلم نوجوانوں کی خاطر خواہ تعداد پہونچنے لگی ہے ۔ یہ لعنتیں ہمارے معاشرہ کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ہماری بے راہ روی ہی اس کی اصل وجہ ہے۔ گذشتہ دنوں پرانے شہر ہی کے ایک گنجان آبادی والے علاقہ سے قحبہ گری کے ریاکٹ کو بے نقاب کیا گیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بھی مسلمان ہی تھے ۔ اب پب کلچر بھی مسلم نوجوانوں میں عام ہوگیا ہے اور پبس میں منشیات کا استعمال دھڑلے سے کیا جا رہا ہے ۔ دو دن قبل منی کونڈہ میں جب پب پر دھاوا کیا گیا تو 24 افراد منشیات کے استعمال کیلئے پازیٹیو پائے گئے اور ان میں10 مسلم نوجوان بھی شامل ہیں۔ یہ مسلم معاشرہ کیلئے انتہائی افسوسناک صورتحال ہے اور اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لینے اور اس صورتحال کے سدباب کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو تباہی سے بچایا جائے ۔ اگر اس صورتحال پر ابھی سے قابو نہیں کیا گیا تو پھر آنے والا وقت مزید تباہی لانے والا ہوسکتا ہے ۔
پب کلچر ہمارے معاشرہ کا حصہ ہرگز نہیں ہے ۔ نہ یہ اسلامی کلچر کا حصہ ہے اور نہ ہی ہندوستانی کلچر کا حصہ ہے ۔ یہ مغربی تہذیب کا حصہ ہے ۔ہم تعلیم یافتہ ہونے اور اعلی معیار زندگی کے ڈھکوسلے اور دکھاوے کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ ہم اپنی بنیادی روایات اور تہذیب و تمدن کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور ہمارے نوجوان دھڑا دھڑ منشیات کی لعنت کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں مادہ پرستی کی حدتک محدود ہوگئی ہیں۔ انہیں نہ اسلامی تعلیمات کا خیال ہے اور نہ ہی وہ ملک کی تہذیبی روایات کو خاطر میں لانے تیار ہیں۔ وہ سب سے الگ دکھنے کی خواہش اور جنون کا شکار ہوگئے ہیں اور نشہ آور اشیا و ادویات کے استعمال کو اپنی زندگیوں کا لازمی حصہ بنانے لگے ہیں۔ یہ نوجوان چکاچوند والی اور عیش و عشرت والی زندگی کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں اور انہیں ہمارے تہذیب و تمدن کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ صورتحال سارے ہندوستان کیلئے اور خاص طور پر مسلم معاشرہ کیلئے حد درجہ تشویشناک ہے ۔ ان نوجوانوں کو یہ احساس تک نہیںہونے پا رہا ہے کہ وہ کس لعنت کا شکار ہورہیے ہیں اور کس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ نشہ اور عیش و عشرت کو ہی اصل زندگی سمجھنے والے یہ نوجوان اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ وہ حقیقی زندگی سے محروم ہورہے ہیں اور جب تک انہیں ہوش آئے گا وہ اپنا بہت کچھ گنوا بیٹھیں گے ۔ کئی تو اپنی زندگیاں بھی اس نشہ کی لعنت کی وجہ سے داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔
مسلم معاشرہ کیلئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ خاموشی کو ترک کرے ۔ حرکت میںآئے اور نوجوانوں کو اس لعنت کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے کمر کس لے ۔ خاص طور پر والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کی حرکتوں پر اور ان کی روز مرہ کی زندگی پر نظر رکھیں۔ انہیں بے راہ روی سے بچائیں ۔ انہیں مذہبی تعلیم سے بہرہ ور کریں۔ ان میںاچھے اور برے کی تمیز پیدا کریں۔ مادی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھنے کی بجائے اخلاقیات اور اقدار کی جانب ان کی توجہ مبذول کروائی جائے ۔ انہیںزندگی کے حقیقی معنوں کو سمجھاتے ہوئے ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بننے میںمدد کریں۔ یہ والدین کی سب سے اولین ذمہ داری ہے ۔