مشرق وسطی میں کشیدگی تشویشناک

   

ہر طرف دہشت پسندی ، قتل و خون غارت گری
سو درندے ہر طرف جنکا پتہ کوئی نہیں
مشرق وسطی میں ویسے تو حالات گذشتہ کئی مہینوں سے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہاں لگاتار کشیدگی پائی جا رہی ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے ۔ لگاتار اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں یا حالات پیدا کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ انسانی جانوں کا انتہائی افسوسناک اتلاف ہو رہا ہے ۔ قتل و خون کا بازار گرم کردیا گیا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے ایک طرح سے ارض فلسطین پر فیصلہ کن حملہ کیا جا رہا ہے ۔ ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں جن کا مقصد و منشاء یہی نظر آتا ہے کہ فلسطین کا نام و نشان ختم کردیا جائے ۔ یہود کی بالادستی یقینی ہوجائے اور اس کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ ہی رہنے نہ پائے ۔ اسرائیل ایسی کارروائیاں کر رہا ہے جن کے نتیجہ میں فلسطین کیلئے اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کیا جا رہا ہے ۔ اسرائیل کی اس معاملے میں اس کے آلہ کار بھی اس کی مدد کرتے جا رہے ہیں۔ یا تو خاموشی سے مدد کی جا رہی ہے یا پھر اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں راست یا بالواسطہ رول ادا کیا جا رہا ہے ۔ سارے علاقہ کو جنگ و جدال کی کیفیت کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں اسرائیل کی جانب سے جو کارروائیاں کی گئی ہیں وہ معمول کی کارروائیاں ہرگز نہیں ہوسکتیں۔ یہ اندیشے یقینی طور پر سر ابھار رہے ہیں کہ اسرائیل اب فلسطین کو صفحہ ہستی ہی سے مٹانے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے ۔ اس نے سب سے پہلے غزہ میں انتہائی ہیبت ناک اور انسانیت سوز نسل کشی کی ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ۔ ہزاروں بچوں کو کا خون بہانے سے بھی ظالم اسرائیل نے گریز نہیں کیا ۔ دنیا کا جہاں تک معاملہ ہے ہر وقت کی طرح اس بار بھی ساری دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے اور جنہوں نے بھی زبان کھولی ہے غاصب و ظالم اسرائیل کی حمایت میں کھولی ہے ۔ ان کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ فلسطین کے معصوم بلکتے بچوں کی آہ و بکا کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور وہ اب بھی اسرائیل کی چاپلوسی کرنے اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے میں مجبور ہیں ۔ اس جرم میں یوروپی اور مسلم ممالک دونوں ہی برابر کے شریک ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی منافقانہ روش تو ساری دنیا پر ظاہر ہے اور اس کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ایک بار پھر مشرق وسطی میں کشیدگی پیدا کی جا رہی ہے ۔ سب سے پہلے تو حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ھنیہ کو تہران میں شہید کردیا گیا ۔ حماس کے فوجی عہدیداروں کا قتل کردیا گیا ۔ حزب اللہ کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ اب یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کی آبادیوں پر حملے کئے جائیں گے ۔ یقینی طور پر اسرائیل اس کے جواب میں ظلم و ستم اور اپنی سفاکیت کا ایک طویل سلسلہ شروع کردے گا اور اس کی آڑ میں وہ اپنے مقاصد و مفادات کی تکمیل میں جٹ جائے گا ۔ آج ساری دنیا اور خاص طور پر مسلم اور اسلامی ممالک کی ذمہ داری ہوگئی ہے کہ وہ علاقہ کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ ساری صورتحال کا تجزیہ کریں۔ اس کے پس پردہ محرکات اور اسرائیل کے مقاصد کو سمجھیں اور حالات کو قابو سے باہر ہونے اور اسرائیلی منصوبوں کو کامیاب ہونے سے بچانے کیلئے حرکت میں آئیں۔ نہ صرف عالم اسلام میں اس تعلق سے رائے عامہ ہموار کی جائے بلکہ اقوام عالم اور اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کو موضوع بنایا جائے ۔ ایسی حکمت عملی تیار کی جائے کہ دنیا کے بیشتر انصاف پسند ممالک اسرائیل کی غاصبانہ کارروائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو تیار ہوجائیں ۔ مشرق وسطی کے حالات پر اگر حسب روایت تغافل برتا گیا اور لا پرواہی کا سلسلہ یونہی دراز ہوتا رہا تو پھر ارض فلسطین پر یہود کا تسلط ختم ہونے کی بجائے مزید مستحکم ہوجائے گا ۔ اس کیلئے جہاں مغربی اور یوروپی ممالک ذمہ دار ہونگے وہیں عالم اسلام اور مسلم ممالک بھی اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہوپائیں گے ۔ زیادہ ذمہ داری مسلم اور اسلامی ممالک کی ہے کہ وہ مصلحت پسندی کی بیڑیوں کو توڑ کر حرکت میں آجائیں ۔
عالم اسلام کی بے حسی اور لا پرواہی نے ہی اسرائیل کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ کچھ آلہ کار عناصر نے اس کا موقع مزید بہتر انداز میں فراہم کیا ہے ۔ اب وقت جن اندیشوں کو تقویت دے رہا ہے وہ معمولی نہیں ہوسکتے ۔ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوصلے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ حوصلے ٹوٹ گئے تو پھر اغیار کو مسلمانوں اور عالم اسلام پر ٹوٹ پڑنے کا وہ موقع ہاتھ آجائیگا جس کی تلاش کئی صدیوں سے کی جا رہی ہے ۔ مشرق وسطی کو جنگ و جدال سے بچانے اور ارض مقدس ‘ فلسطین کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے عالم اسلام اور مسلم ممالک کو اپنی ذمہ داری کا از خود احساس کرنا چاہئے اور مختلف فورمس میں رائے ہموار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پچھتاوے ہی ہاتھ آئیں گے ۔
مودی حکومت ‘ کب جوابدہ ہوگی ؟
ہندوستان میں نریندر مودی کی قیادت میں تیسری معیاد کیلئے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت قائم ہوئی ہے ۔ جس وقت سے مودی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے اس وقت سے ہی حکومت نے اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری سابقہ کانگریس حکومتوں پر عائد کرنی شروع کردی تھی ۔ ملک کے ہر مسئلہ کیلئے نہرو یا کانگریس کی حکمرانی کو ذمہ دار قرار دینا حکومت اور اس کے تقریبا تمام وزراء کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ نریندر مودی نے پانچ سال میں ملک کی صورتحال تبدیل کرکے رکھ دینے کا عوام سے وعدہ کیا تھا ۔ وہ اپنی حکمرانی کے 10 برس پورے کرچکے ہیں اور اب تیسری معیاد کیلئے بھی انہیں موقع ملا ہے ۔ اس کے باوجود حالات بدلنا تو دور مودی حکومت میں احساس ذمہ داری اور جوابدہی تک پیدا نہیں ہوا ہے ۔ پارلیمنٹ میں شعبہ زراعت کی کارکردگی پر مباحث ہوئے ۔ مرکزی وزیر شیوراج سنگھ چوہان نے اپنے شعبہ میں درپیش مشکلات اور چیلنجس کیلئے سابقہ کانگریس حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا ۔ اگر مودی حکومت اور اس کے وزراء گذشتہ دس برس میں بھی حالات کو بہتر نہیں بنا سکیں ہیں اور سابقہ غلطیوں کو سدھارا نہیں جاسکا ہے تو پھر انہوں نے تیسری معیاد کیلئے اقتدار کیوں قبول کیا ہے ؟ ۔ دس برس کے عرصہ میں اگر ماضی کی غلطیوں کو سدھارا نہیں جاسکا ہے تو یہ سابقہ حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کی نا اہلی ہے ۔ حکومت میں جوابدہی کا احساس بھی اب تک پیدا نہیں ہوسکا ہے ۔ جب حکومت وقت کو اپنی ذمہ داریوں اور جوابدہی کا ہی احساس نہیں ہے تو پھر اس حکومت سے حالات کی تبدیلی کی امید کرنا فضول ہی ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو دوسروں کو مورد الزام ٹہرانے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔