آپ چاہیں یا نہ چاہیں میں جیوں گا تب تلک
چیختے زخموں کو جب تک نشترِ غم راس ہے
مشرق وسطی میںکشیدگی
سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد مشرق وسطی اور خلیج فارس میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے حالات کا استحصال کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ جو ڈرون حملے کئے گئے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔ ان کی وجہ ساری دنیا میں تیل کی مارکٹ میں اتھل پتھل ہونے کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ بعض ممالک کو تیل کی سپلائی میں رکاوٹیں اور کمی آسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ممالک میں فیول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے اندیشے ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔ علاقائی ممالک میں اختلافات میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین پہلے ہی سے اختلافات ہیں اور ان ڈرون حملوں کی وجہ سے ان میں مزید اضافہ ہونے لگا ہے ۔ حالانکہ حوثی باغیوں نے یمن سے یہ حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن امریکہ یا اس کے حواری اس دعوی کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ اگر اس دعوی کو قبول بھی کرلیا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران کی ان حوثی باغیوں کو تائید و حمایت حاصل ہے ۔ اس کا اعتراف بھلے ہی نہ کیا جا رہا ہو لیکن یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ حوثی باغی ایران کی تائید و حمایت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ سعودی عرب کو وقفہ وقفہ سے نشانہ بنانے لگے ہیں۔ حوثی باغیوں کی جانب سے اس سے پہلے بھی سعودی عرب کے مختلف شہروں کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کئے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے راڈار سسٹم نے ان حملوں کو ناکام بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے لیکن بعض موقعوں پر ایسے حملے کامیابی سے کئے گئے ہیں۔ یہ صورتحال دونوں ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ سارے علاقہ میںکشیدگی کا باعث بن رہی ہے ۔ اس سے عوام پر بوجھ عائد ہونے لگا ہے ۔ خود ایران پر تحدیدات ہیں اور سعودی عرب کو یمن کی جنگ کی وجہ سے معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ اب ان ڈرون حملوں کی وجہ سے عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ فی الحال مشرق وسطی میںایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں کسی بھی گوشہ سے حالات کا استحصال کیا جاسکتا ہے اور اس کشیدگی کو کم کرنے کی بجائے اسے ہوا دی جاسکتی ہے ۔امریکہ اور اس کے حواری ممالک کا الزام ہے کہ یہ حملے ایران نے کئے ہیں۔ جو شواہد حملے کے مقام سے دستیاب ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی ہتھیار بھی اس میں استعمال کئے گئے ہیں۔ ان دعووں میں صداقت ہو یا نہ ہو لیکن حالات کو ایک رخ دیتے ہوئے ان کا استحصال کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔
امریکہ کے ایران کے ساتھ اختلافات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ایران پر تحدیدات عائدکرنے کے علاوہ اسے مختلف طریقوں سے گھیرے میں لینے امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور سعودی عرب پر ہوئے ڈرون حملوں کے بعد اس کو ایک اچھا موقع ہاتھ آیا ہے ۔ وہ سارے علاقہ میں اپنے دبدبہ کو یقینی بنانے اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کی مدد کرنے کیلئے حالات کا استحصال کرنے پر اتر آیا ہے اور اس کے مقاصد کے تعلق سے کبھی دو رائے نہیںہوسکتی ۔ وہ ہر معاملہ میںعلاقہ میں اپنا دبدبہ بنانے اور اسرائیل کو تقویت پہونچانے کیلئے سرگرم رہتا ہے اور اس موقع کا بھی وہ اسی مقصد کیلئے استعمال کر رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقہ کے ممالک حالات کو سمجھیں اور حقیقی معنوں میں اس کی سنجیدگی کا جائزہ لیتے ہوئے اقدامات کریںاور کسی اور ملک کو چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو حالات کے استحصال کا موقع نہ دیا جائے۔ علاقہ کی سلامتی اور اس کے تحفظ کیلئے ہر ملک کو اپنے اپنے انداز میں آگے آنے کی ضرورت ہے اور اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب پر جو حملہ کیا گیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور ایسی کارروائیوں کا کوئی بھی جواز نہیں ہوسکتا ۔ جو ممالک اس کے ذمہ دار ہیں انہیں اپنی حرکتوں سے باز آجانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں کسی کا آلہ کار بننے سے بچنا چاہئے اور علاقہ کے امن و سلامتی کو ترجیح دیتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاقہ کے ذی اثر اور ذمہ دار ممالک کو موجودہ حالات میں سرگرم ہونا چاہئے ۔ ایک علاقائی محاذ بناتے ہوئے اختلافات کو فراموش کرنے کی سمت پہل کی جانی چاہئے ۔اختلافات کو دور کرتے ہوئے ایک اتحادی علاقہ تشکیل دینے کے مقصد سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اسی صورت میں بیرونی ممالک کو علاقہ کے حالات کا استحصال کرنے سے روکا جاسکتا ہے ۔ جب تک یہ ممالک سرگرم نہیں ہونگے بیرونی طاقتیں حالات کا استحصال کرتی رہیں گی ۔
