مطلقہ متوفیہ کا مہر اور تقسیم

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو طلاق دیدی تھی۔ مطلقہ بیوی کو زر مہر ادا کررہے تھے ابھی نو سو(۹۰۰) روپیہ باقی تھے کہ ہندہ کا انتقال ہوگیا۔ ورثاء میں والدہ ، تین بھائی ، اور پانچ بہنیں موجود ہیں۔ اب زید کا کہنا یہ ہے کہ مطلقہ بیوی فوت ہوچکی ہے اسلئے بقیہ مہر کی ادائی ان پر واجب نہیں۔
ایسی صورت میں شرعاً بقیہ رقم مرحومہ کے ورثاء کو ملے گی یا نہیں ؟ اگر ملے گی تو اس کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں مہر چونکہ شوہر کے ذمہ دَین ہوتا ہے اس لئے اسکی ادائی شوہر پر واجب ہے جیسا کہ فتاویٰ مہدویہ جلد اول ص ۱۴۱ میں ہے ہو دین فی ذمۃ الزوج۔ مرحومہ ہندہ کے بقیہ مہر سے بعد وضع مصارف تجہیز و تکفین و ادائی دیون و اجرائی وصیت در ثلث ما بقی جو کچھ بچ رہا ہے اس کے چھیاسٹھ (۶۶) حصے کرکے والدہ کو گیارہ(۱۱) تینوں بھائیوں سے ہر ایک کو دس دس اور پانچ بہنوں سے ہرایک کو پانچ پانچ حصے دیئے جائیں۔
منقبت حضور سیدنا بندہ نواز گیسو درازؒ
آپ ہیں مشکل کُشا بندہ نوازؒ
آپ سب کا آسرا بندہ نوازؒ
مشکلیں حل ہوتی ہیں سب کی یہاں
آپ ہیں عُقدہ کشا بندہ نوازؒ
پیر نصیرالدینؒ کے ہیں لاڈلے
مرتبہ کیا آپ کا بندہ نوازؒ
نیست کعبہ در دکن گیسودرازؒ
راز یہ کس پر کُھلا بندہ نوازؒ
دوجہاں کی فکر سے آزاد ہے
آپ کا جو ہوگیا بندہ نوازؒ
آپ کے در کا گدا تاجیؔ بھی ہے
ہو کرم اس پر سدا بندہ نواز
مولانا سید شاہ احمد علی تاجی شرفی القادری