مظلوم وزیر اعظم

   

یہ زندگی ظلم بھی ہم پر سزا بھی ہے
لگتا ہے اپنے ساتھ کوئی بددعا بھی ہے
توقعات کے عین مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار کے اسمبلی انتخابات میں خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ بہار کی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ووٹر ادھیکار یاترا کے دوران کسی کارکن کی جانب سے خود ان کے اور ان کی آنجہانی والدہ کے تعلق سے ناشائستہ الفاظ کی ادائیگی پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس تنقید کیلئے وہ ( مودی ) مخالفین کو معاف کردے لیکن تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی ۔ یہ وزیر اعظم اور بی جے پی کا طریقہ کار رہا ہے کہ وہ جب کبھی عوامی ناراضگی اور مخالفت کا سامنا کرتے ہیں تو خود کو مظلوم بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیر اعظم یا بی جے پی کی جانب سے ایسا پہلی بار کیا جا رہا ہے ۔ اس سے قبل بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا تاہم اسے عوام نے قبول نہیں کیا تھا ۔ جس وقت کرناٹک میں اسمبلی انتخابات ہو رہے تھے اس وقت بھی مودی اور بی جے پی نے اسی طرح کا مسئلہ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ وہ روزآنہ اپوزیشن کی گالیاں کھاتے ہیں۔ انہیں اس کی عادت ہوگئی ہے ۔ بے تحاشہ تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے جب نتائج سامنے آئے تو واضح ہوگیا کہ ملک کے عوام اپنے مسائل کی یکسوئی کیلئے ووٹ کرنا چاہتے تھی اور انہوں نے ایسا ہی کیا تھا ۔ انہوں نے ملک کے وزیر اعظم کو مظلوم سمجھنے سے عملا انکار کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ اب جبکہ بہار میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آن پہونچا ہے اور تمام جماعتیں اس کی تیاریاں کرنے لگی ہیں تو ایسے میںبی جے پی کی جانب سے عوامی تائید حاصل کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی حربہ اور ہتھکنڈہ اختیار کئے جانے کی امید کی ہی جا رہی تھی اور خود وزیر اعظم نے ایسی کوشش شروع کردی ہے ۔ ووٹر ادھیکار یاترا کے دوران جس شخص نے ناشائستہ زبان استعمال کی تھی اس کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ اس کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاچکی ہے ۔ اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی کی جا رہی ہے ۔ تمام قانونی مراحل پورے کئے جا رہے ہیں۔
ایک عام تاثر یہی پیدا ہونے لگا ہے کہ خود نریندر مودی یا بی جے پی کے پاس بہار کی ترقی اور اپنی حکومتوں کی کارکردگی دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہے ۔ عوام بہار میں این ڈی اے حکومت کی 20 سالہ کارکردگی اور مرکز میں مودی حکومت کی 11 سالہ کارکردگی کے تعلق سے سوال کر رہے ہیں۔ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ ڈبل انجن کی سرکار رہنے کے باوجود بہار میں انتہاء درجہ کی بیروزگاری اور غربت و افلاس کیوں ہے ۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ بہار میں لاقانونیت کا عروج کیوں ہے ۔ کیوںریاست کے عوام کو دوسری ریاستوں کو نقل مقامی کرتے ہوئے روزگار حاصل کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے بہار کے عوام کو راحت اور سہولیات پہونچانے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے ۔ بہار میں عوام کے سوالات پر نتیش کمار یا نریندر مودی کوئی جواب دینے کے موقف میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کی مہم نے پوری کردی ہے جہاں لاکھوں افراد کے نام فہرست سے خارج کردئے گئے ہیں اور زندہ افراد کو بھی مردہ قرار دیدیا گیا ہے ۔ کچھ مخصوص طبقات کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے ووٹ حذف کردئے گئے ہیں تو دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کارکنوں کو بہار میں ووٹر کے طور پر درج کروادیا گیا ہے ۔ اسی مسئلہ کو راہول گاندھی نے ووٹ چوری کا نام دیا ہے اور ووٹر ادھیکار یاترا کا بہار میں انعقاد عمل میں لایا تھا جس میں بہار کے عوام نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے ہوئے اسے کامیاب بنایا ہے ۔
خود کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے بہار کے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کیلئے خود وزیر اعظم اور بی جے پی کی جانب سے کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ بہار میں بھی شائد یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی ۔ بہار کے عوام حکومتوں کی کارکردگی پر سوال کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے کی بجائے مرکزی حکومت کی 11 سالہ کارکردگی اور بہار میں نتیش کمار حکومت کی 20 سالہ کارکردگی عوام میں پیش کی جائے ۔ تاہم ایسا کرنے کیلئے بی جے پی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور صرف توجہ ہٹانے کے حربے اور ہتھکنڈے ہی اختیار کئے جاسکتے ہیں جو شائد انتخابی نتائج پر اثر انداز نہیں ہو پائیں گے ۔