معاشی سست روی

   

کب کا ظاہر ہوگیا میرا وجود
آپ کہتے ہیں کہ آب و گل میں ہوں
معاشی سست روی
حکومت پر جب عوام اندھا اعتبار کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ حکومت بھی عوام کو ہی اندھا سمجھنا شروع کردیتی ہے اور پھر ایک ایسا اندھیرا چھا جاتا ہے کہ اس تاریکی میں عوام کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہندوستان کی موجودہ حکمراں طاقت پر بھی عوام نے اندھا اعتبار کیا جس کا خمیازہ وہ بھگتنے لگے ہیں۔ نوٹ بندی کی ضرب کے بعد دوسری میعاد کی حکومت میں ہندوستان کی معیشت جھکولے کھانے لگی ہے۔ کساد بازاری کے باعث ملک کے اندر کئی فیاکٹریاں بند کردی گئی ہیں۔ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہوگئے۔ جی ایس ٹی کی ضرب سے تاجر طبقہ ہنوز پریشان ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے عوام اندر ہی اندر گھٹ رہے ہیں۔ لیکن زبان پر اُف تک نہیں آرہی ہے۔ وجہ صرف اندھا اعتبار ہے۔ حکومت نے ملک کے معاشی ماہرین اور بیوروکریٹس کی جانب سے پیش کردہ سفارشات پر عمل آوری سے گریز کیا تو آج معیشت کمزور پڑگئی ہے۔ نریندر مودی نے جب دوسری میعاد کے لئے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا تو ان سے حکومت ہند کے سابق سکریٹری نے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران وزیراعظم نے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کرنے چاہئے اس سے متعلق سوال کیا تھا۔ اعلیٰ دستوری عہدہ پر فائز اس بیوروکریٹ نے واضح کردیا تھا کہ سال 2015 ء میں ہی تمام تجاویز و سفارشات پیش کی جاچکی ہیں۔ خاص کر وزیراعظم کے دفتر کے ایک خاص اجلاس میں اس پر غور و خوض بھی کیا گیا لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی حکومت کے اس پالیسی ایجنڈہ کو روبہ عمل نہیں لایا گیا۔ نتیجہ میں آج ملک کو کساد بازاری کا سامنا ہے۔ سابق یو پی اے حکومت کے سربراہ ماہر معاشیات منموہن سنگھ نے اپنی 10 سالہ حکمرانی کے آخری 18 ماہ کے دوران ملک کی معیشت کو بہتر بنانے والے اقدامات کئے تھے۔ اس کی بدولت آج معیشت ہنوز اپنی بہتری کی جدوجہد کررہی ہے لیکن موجودہ مودی حکومت نے معاشی اُمور سے نمٹنے میں کوتاہیاں کی تو سارا ملک معاشی انحطاط کے نقصانات سے دوچار ہورہا ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر دو ڈرون حملوں کے بعد تیل کی پیداوار متاثر ہوئی اس کی وجہ سے عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ قیمتوں میں اس اضافہ کا اثر ہندوستانی معیشت پر بھی پڑرہا ہے۔ اگر پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو پھر ہر شئے مہنگی ہوجائے گی۔ اشیاء کی حمل و نقل پر ہونے والے مصارف میں اضافہ ہوگا۔ مئی 2014 ء میں جب نریندر مودی کی کابینہ نے حلف لیا تھا یہ واضح کردیا گیا تھا کہ نئی حکومت ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے کام کرے گی لیکن اصلاحات کے عمل کے بغیر یہ کام ادھورا رہ گیا۔ کرنسی کی گرتی قدر ڈالر کے مقابل روپیہ کی قدر میں کمی نے ملک کی معیشت کی حقیقی صورتحال کو ظاہر کردیا ہے۔ اس کے باوجود ماہرین نے حکومت کی رہنمائی کرتے ہوئے معاشی اُمور میں بہتری لانے کی جانب توجہ دلائی لیکن مذہبی جذبات، ہجومی تشدد اور نفرت کے ماحول کو فروغ دینے میں مصروف حکمرانوں نے ملک کی معیشت کی فکر نہیں کی جس کے بعد مودی حکومت کی جانب سے معاشی بہتری کیلئے کئے گئے اقدامات میں کامیابی نہیں ملی۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران معاشی اُمور کو نظرانداز کرنے کی سنگینیوں کو اب بھگتنا پڑے گا۔ مودی حکومت اپنی خرابیوں کی جانب توجہ نہیں دے رہی ہے۔ عوام کو بدحالی پر رونے کی نوبت آجائے گی۔ آئی ایم ایف نے عالمی تجارتی تنازعات اور معاشی بے یقینی کی بنیاد پر آئندہ سال معاشی سست روی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جب عالمی سطح پر ہی معاشی انحطاط آئے گا تو ہندوستان مزید متاثر ہوگا جبکہ سابق میں 2009 ء میں جب عالمی کساد بازاری کا ماحول پیدا ہوا تھا تو ہندوستان اس سے غیر متاثر تھا۔ اب صورتحال برعکس ہے۔ مودی حکومت نے عوام کے اندھے اعتبار کا غلط فائدہ اُٹھایا اور عوام کو ہی اندھا سمجھ لیا جس کے بعد ہی نوٹ بندی، جی ایس ٹی جیسے سخت فیصلے کئے گئے۔ اس طرح کے فیصلوں سے ہونے والی خرابیوں کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں عوام کے حق میں نہیں ہے۔ عالمی اداروں کی ملکی معیشت کے بارے میں مایوس کن رپورٹ یقینا ایک تشویشناک بات ہے اس لئے مودی حکومت کو اب بھی ماہرین معاشیات اور سینئر بیوروکریٹس کے مشوروں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔