ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔ ملک کی آبادی 140 کروڑ کے آس پاس پہونچ چکی ہے ۔ ملک کے عوام کی ضروریات بھی بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ بدلنے لگی ہیں اور لوگ اب اپنے مستقبل اور بچت کے تعلق سے فکرمند ہونے لگے ہیں۔ گذشتہ ایک دہے میں ملک میں جو معاشی حالات پیدا ہوئے ہیں انہیں عوام کیلئے نامساعد ہی کہا جاسکتا ہے ۔ جس طرح سے موجودہ حکومت نے مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے عوام کو رجھانے اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی اس سے یہ امیدیں عوام نے باندھ لی تھیں کہ نریندرمودی حکومت میں انہیں مہنگائی سے راحت ملے گی ۔ تاہم صورتحال ان وعدوں کے یکسر مختلف ہے ۔ جس وقت نریندر مودی حکومت پہلی معیاد کیلئے برسر اقتدار آئی تھی اس وقت سے آج مہنگائی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ پٹرولیم اشیا کی قیمتیں الگ سے بڑھ گئی ہیں۔ عوام کیلئے دودھ اور ادویات جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء حاصل کرنا بھی آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ کروڑہا لوگ آج بھی ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی کیلئے تگ و دو کرنی پڑ رہی ہے ۔ کئی طرح کے مسائل میں عوام گھرے ہوئے ہیں۔ ان کی آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہونے لگا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت عوام کو درپیش مسائل کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ حکومت صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے کام کرنے پر اکتفاء کر رہی ہے اور اہمیت کے حامل و بنیادی مسائل کی یکسوئی کی جانب توجہ دینے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ وزارت فینانس نے ملک میں مالیاتی مسائل اور معاشی مشکلات ہونے سے ہی انکار کردیا ہے ۔ وزارت فینانس کی الگ ہی منطق دکھائی دے رہی ہے ۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی مشکلات میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ عوام کی بچت اس لئے کم ہونے لگی ہے کیونکہ لوگ اپنے لئے مکان اور گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دیر ہے ہیں۔ یہ ایک الگ ہی منطق ہے کیونکہ ہر دور میں لوگ اپنے لئے مکان اور گاڑی خریدتے رہے ہیں لیکن ان کی بچت آج جس حد تک گر گئی ہے پہلے کبھی نہیں گری تھی ۔ لوگ پہلے بھی اپنے لئے مکان بناتے اور خریدتے رہے ہیں۔ پہلے بھی اپنے لئے گاڑیاں عوام نے خریدی ہیں لیکن آج جس طرح کے حالات ہیں پہلے کبھی نہیں تھے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزارت فینانس کی منطق سے حکومت کے وعدوں کی بھی نفی ہو رہی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2022 تک ملک کے ہر غریب شہری کو اس کا اپنا ذاتی گھر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اب اگر لوگ خود گھر خرید رہے ہیں تو یہ واضح ہورہا ہے کہ حکومت اپنے وعدہ کی تکمیل میں ناکام ہوگئی ہے ۔ وزارت فینانس کی خاص روایت رہی ہے کہ سنگین نوعیت کے مسائل کے وجود سے بھی انکار کیا جانے لگا ہے ۔ پہلے بھی اسی طرح سے کئی مواقع پر وزارت نے عوام کی مشکلات کا اعتراف کرنے سے گریز کیا تھا اور الگ ہی وجوہات بیان کردی گئی تھیں۔ پیاز اور لہسن کی قیمتوں پر وزیر فینانس نے جواب دیاتھا کہ وہ یہ اشیا استعمال نہیں کرتیں ۔ دودھ اور ادویات کی جو قیمتیں ہیں وہ الگ سے بڑھ رہی ہیں۔ دالوں کی قیمت عوام کی پہونچ سے باہر ہوتی جا رہی تھی ۔ ترکاریاں تک عام آدمی کیلئے خریدنا مشکل ہونے لگا تھا ۔ پٹرولیم اشیا کی جو قیمتیں 2014 میں تھیں آج اس سے دوگنی ہوگئی ہیں۔ پکوان گیس کی قیمت تو دوگنی سے زیادہ ہوگئی تھی ۔ حکومت مکان خریدنے اور گاڑی خریدنے کی وجوہات تو ضرور بیان کر رہی ہے لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے عائد ہونے والے بوجھ سے انکار کر رہی ہے ۔ ہندوستان میں گذشتہ ایک دہے میں غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس معاملے میں ملک کئی پائیدان نیچے چلا گیا ہے ۔ اسی طرح بیروزگاری کی شرح بھی پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ افراط زر کی شرح بھی حکومت کے قابو سے باہر ہوچلی تھی ۔ اس سب کے باوجود اگر حکومت کی جانب سے معاشی مشکلات اور پریشانیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا ہے تو یہ مضحکہ خیز بھی ہے اور افسوس کی بات بھی ہے ۔ حکومت کو محض اپنی امیج کی بجائے عوام کی مشکلات کی فکر بھی ہونی چاہئے ۔ ملک میں جو واقعی صورتحال ہے اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔ اس کا تجزیہ کیا جانا چاہئے ۔ اس کو بہتر بنانے اور عوام کو راحت پہونچانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور حکومت کی پالیسیوں پر نظرثانی کی جانی چاہئے ۔