قسط سوم
ڈاکٹر قمر حسین انصاری
معراج النبیؐ : رسول اﷲ ﷺ کا شاہکار معجزہ ہے
’’سرِ لامکاں سے طلب ہوئی
سوئے منتہی وہ چلے نبی
کوئی حد نہ ان کے عروج کی
بلغ العلےٰ بکمالہٖ‘‘
عنبرؔ وارثی
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ لے گیا جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھیں ہیں تاکہ ہم اُسے اپنی ( قدرت ) کی نشانیاں دکھائیں‘‘۔ ( سورۃ الاسراء )
الزرقانی کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ کے کم از کم ۴۵صحابہ کرام نے کم یا زیادہ تفصیلات کے واقعۂ معراج کو بیان کیا ۔ آئیے پہلے امام بخاریؒ کے بیان کردہ حقائق کو جمع کرلیں جنھوں نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی … ایک رات رسول اﷲ حطیم (کعبۃ اللہ) میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ نیند اور بیداری کی کیفیت محسوس کررہے تھے ۔ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔ انھوں نے آپﷺ کا سینۂ مبارک چاک کیا اور ایک سونے کی طباق یا کشتی میں جو ایمان سے بھری ہوئی تھی آپ ؐ کا دل دھویا ۔ پھر واپس رکھ دیا اور پھر تیز ترین سواری براق پر سوار کرکے سیدھے پہلے آسمان پر لے پہنچے ۔ محافظین کے دروازہ کھولنے کے بعد آپؐ کی وہاں حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جنھوں نے آپؐ کا استقبال کیا ۔ دوسرے آسمان پر آپؐ کی ملاقات حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام سے ہوئی ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام ، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام ، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپؐ کو خوش آمدید کہا جبکہ ساتویں آسمان پر حضرت ابراھیم علیہ السلام نے آپؐ کا خیرمقدم کیا جو ایک مسجد کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے جس کا نام ’’بیت المعمور ‘‘ ہے ۔ یہ بظاہر وہی مسجد جسے قرآن حکیم ’’دور ترین مسجد ‘‘ کہتا ہے ۔ اس سے آگے سدرہ درخت کی حد شروع ہوگئی ( سورۃ النجم ۱۴) یہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اگر میں اس حد سے آگے گیا تو نورِ الٰہی ( تجلی) سے جل جاؤں گا ۔ لیکن چونکہ آپؐ کو دعوت دی گئی ہے ، آپؐ آگے تشریف لیجائیے ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپؐ کو خدا کی موجودگی کی دہلیز تک باقی ماندہ راستے کے بارے میں بتایا ۔ جیسے ہی آپؐ آگے بڑھے تو آپؐ نے اُن تجلیوں کی آواز سنی جو خدائی فیصلوں اور ارادوں کو لکھ رہے تھے ۔ پھر آپؐ مقدس احاطہ میں داخل ہوئے جسے (حضیرۃ القدس ) کہا جاتا ہے جہاں قرآن مجید کے مطابق رب جل شانۂ اور آپؐ کے درمیان دو کمانوں حتیٰ کہ اُس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ( سورۃ النجم ۹) اور سلاموں کا اس طرح تبادلہ ہوا :رسول اﷲ نے کہا : ’’رب تعالیٰ جل شانۂ کے لئے مقدم و متبرک خالص و سچے اور پرخلوص تسلیمات‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے نوازش و کرم سے جواب دیا :’’سلام ہو تم پر اے پیغمبر اور اﷲ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ‘‘ ۔ قربان جائیے اپنی اُمت کو حد سے زیادہ چاہنے والے نبیﷺ پر جنھوں نے جواب دیا ’’سلام ہو ہم پر (موجودہ مسلمانوں پر )اور اﷲ کے نیک بندوں پر ‘‘۔ پھر قرآن حکیم ( سورۃ النجم ۱۰) کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندے ( محمدؐ) وحی کی (القا کیا) جس میں بارہ احکامات کا اضافہ کیا ۔ ( سورۃ الاسراء )
احادیث کے مطابق رب رحمن و رحیم نے آپؐ پر کریمانہ و رحیمانہ وعدہ کرکے آپ کو افتخار و اعزاز بخشا کہ محمدؐ کو ماننے والا ہر فرد جو اﷲ واحدۂ لا شریک پر یقین و ایمان رکھتا ہے اُسے بخش دیا جائیگا اور اگر ضرورت پڑی تو پہلے اُسے دوزخ میں گُناہوں کی کچھ سزا دے کر پاک کیا جائے گا ۔
پھر اﷲ تعالیٰ نے عرش الٰہی کے خزانے سے قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات لیکر رحمۃللعٰلمین کو تحفہ اور یادگار نشانی کی طورپر عطاء کیں ۔ آخر میں اﷲ تعالیٰ نے روزآنہ کی پانچ نمازیں فرض فرمائیں( بنیادی طورپر ۵۰نمازیں تھیں لیکن بعد ازاں واپسی کے سفر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ پر نبی کریم ﷺ نے بارگاہ الٰہی کی دہلیز پر کئی مرتبہ جاکر بتدریج کم کراتے ہوئے بالاآخر پانچ نمازیں کروائیں جس میں ہر نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے ۔ ( سورۃ الانعام )
اسی لئے رسول اﷲ نے فرمایا : ’’مومن کی معراج اُس کی نماز میں ہے ‘‘ ( متفق علیہ ) ہمیں چاہئے کہ اﷲ کے اس تحفہ کی حفاظت کریں ، کوئی فرض نماز ترک نہ کریں۔
واپسی کے سفر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپؐ کو جنت ، اُس کی نعمتیں اور مسرتیں دکھانے کے ساتھ وہ افراد بھی دکھائے جو اُس کے مستحق ہیں ۔ اُسی طرح دوزخ ، اُس کا عذاب ، ہولناکیاں اور وہ لوگ جو اُس کے حقدار ہیں دکھائے ۔
آپؐ بیت المقدس پہنچے جہاں تمام سابقہ پیغمبروں نے آپ کا خیرمقدم کیا اور درخواست کی آپ نمازِ شکرانہ کی امامت کریں اس طرح آپ امام الانبیاء بنے ۔ پھر آپ مکہ واپس ہوئے ۔
( بحوالہ ڈاکٹر محمد حمیداﷲ ؒ )
’’کروں کیسے بیان اُن کو لفظ میرا ثناء اُن کو
جہانوں میں وہ ارفاع ہیں ، ہوا رتبہ اُن کو
رسولوں کی یہ سرداری ، خدا نے ہی دیا اُن کو
مقام اُن کا سبحان اﷲ ، مبارک ہو لقاء اُن کو ‘‘