معیشت کو پٹری پر واپس لانا مشکل نہیں

   

پی چدمبرم

وزیر اعظم نریندر مودی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشکل حالات اور بدنامی سے نکل کر کیسے اپنے آپ کے لئے مشہور ہونے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ یہ وعدہ کرنے کے بعد کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں صرف 21 دنوں میں کامیابی حاصل کریں گے لاک ڈاون 1.0 نافذ کیا گیا اور پھر 2.0 نفاذ عمل میں آیا۔ بعد کے لاک ڈاونس سے انہوں نے خود کو دور کرلیا۔ لاک ڈاون 2 جب اپنے اختتام کے قریب پہنچا تب انہوں نے ساری ذمہ داریاں ریاستی حکومتوں اور وزرائے اعلیٰ پر ڈال دیں۔ تب تک ان کا ہر لفظ آہنی قانون ہوا کرتا تھا لیکن اب معتمد داخلہ اور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (ICMR) پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے جڑے تمام معاملات کے بارے میں مبہم اعلامیہ اور بیانات جاری کریں۔ جس دن کورونا متاثرین کی تعداد دو لاکھ کو عبور کرچکی تھی آئی سی ایم آر نے ایک بیان جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ ملک میں کورونا وائرس انفکشن کے نقطہ عروج پر پہنچنے میں ابھی بہت وقت ہے یعنی وہ منزل بہت دور ہے۔
کورونا وائرس کی تباہی و بربادی اور عوام کی پریشانیوں کے پیش نظر ملک میں عجیب و غریب بے چینی پیدا ہوئی اور افراتفری کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے جس 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی راحتی پیاکیج کا اعلان کیا وہ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کی ذہنی اختراع تھی۔ کوئی بھی ماہر اقتصادیات اس کھچڑی معاشی راحت کی کسی بھی طرح تائید نہیں کرے گا۔ حالانکہ ہماری وزیر فینانس مسٹر نریندر مودی کی ایما پر بار بار ملک کی معاشی حالت اور اقتصادی پیاکیج کے بارے میں وضاحت کرتی جارہی ہیں۔ اب تو پنج سالہ منصوبہ اور دیگر اسکیمات پر بھی انجماد کا ٹھپا لگادیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جس 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی یا معاشی پیاکیج کا اعلان کیا گیا وہ دراصل پنج سالہ منصوبوں کے لئے مختص اور بچی کچی تھوڑی سی رقم ہی پر مشتمل پیاکیج ہے اور اسے مودی نے بڑی ہشیاری سے راحتی پیاکیج کا نام دیا ہے۔ جیسے ہی نریندر مودی نے دیکھ لیا کہ ان کا اعلان کردہ راحتی پیاکیج اوندھے منہ گریگا تب انہوں نے اس پیاکیج کے بارے میں وضاحت کا کام وزیر فینانس نرملا سیتارامن پر چھوڑ دیا اور پھر انہوں نے مودی کی ایما پر عجیب و غریب وضاحتیں بھی پیش کیں۔
دوسری طرف مسٹر مودی نے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی حالت زار پر بھی ایک لفظ نہیں کہا۔ اپریل میں بڑے پیمانے پر مائیگرینٹ مزدور اپنے گاوں اور دیہاتوں کو جاتے رہے اور اس معاملہ میں انہیں انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا اور جب مزدوروں کا یہ مسئلہ قابو سے باہر اور دھماکو ہوگیا یہ سمجھا جارہا تھا کہ مودی سامنے آکر مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے اور انہیں راحت دینے کی بات کریں گے لیکن یہاں پر بھی مودی خاموش رہے بلکہ وہ وزیر ریلوے تھے جنہوں نے سامنے آکر اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزدوروں کی حالت زار کے لئے ریاستی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ آج بھی ریلوے اسٹیشنوں اور بس اسٹیشنوں پر لاکھوں کی تعداد میں مائیگرینٹ مزدور پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ آخر کب انہیں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل ہوگی اور وہ اپنے گاوں پہنچیں گے۔

سچ یا جھوٹ : مودی نے سی آئی آئی کی جنرل باڈی سے خطاب میں جو کچھ بھی کہا ہے اس پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ویسے بھی مودی کو اپنا یہ جذبہ بنائے رکھنا ضروری ہے۔ مودی کا خطاب عجیب طرح کا رہا جس میں انہوں نے کہا ’’مجھ پر بھروسہ رکھئے معاشی نمو کو واپس پٹری پر لانا کوئی مشکل کام نہیں‘‘ کیا مودی کے یہ الفاظ درست ہیں؟ اگر معاشی نمو کو پٹری پر واپس لانا مشکل نہیں ہے تو پھر حکومت 2017-18 میں قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو میں آئی کمی کو کیوں روک نہ سکی۔ کیوں حکومت نے اس وقت مجبوری و بے بسی کا مظاہرہ کیا جب 2019-20 کے چوتھے سہ ماہی میں شرح نمو مسلسل 8 ویں مرتبہ گر گیا تھا۔ یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ 2019-20 کے چوتھے سہ ماہی کی شرح نمو 3.1 فیصد تھی جو 2002-03 کے تیسرے سہ ماہی کے بعد سے سب سے کم شرح نمو رہی۔ اس وقت بھی بی جے پی اقتدار میں تھی۔ مودی یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں سال 2019-20 میں شرح نمو 4.2 فیصد تھی اور 17 برسوں میں یہ سب سے کم شرح نمو تھی۔ اگر دیکھا جائے تو مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت میں معیشت تباہ ہوگئی ہے کیونکہ 2008 میں عالمی سطح پر جو معاشی انحطاط یا معاشی بحران پیدا ہوا تھا اس کا بھی اثر ہندوستان کی شرح نمو پر ایسے نہیں مرتب ہوا۔ دوسری طرف ہماری وزیر فینانس اکثر 2012-13 اور 2013-14 میں یو پی اے کی کارکردگی یا مظاہرہ کا مضحکہ اڑاتی رہتی ہیں اور وہ جان بوجھ کر سی ایس او کی جانب سے سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کو نظرانداز کردیتی ہیں۔ سی ایس او کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2011-12 میں ہمارے ملک کی شرح نمو 5.2 فیصد تھی (میں بحیثیت وزیر فینانس یکم اگست 2012 کو واپس آیا تھا) 2012-13 میں شرح نمو 5.5 فیصد اور 2013-14 میں شرح نمو 6.4 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ وزیر فینانس کو دوبارہ یہ یاد دلانے کے لئے میں بتاتا چلوں کہ یو پی اے نے این ڈی اے کو ایک شاندار اور مستحکم معیشت حوالہ کی تھی۔ منصفانہ بات یہ ہے کہ این ڈی اے نے معیشت کی اس رفتار کو 2014-15 ، 2015-16 اور 2016-17 کے زیادہ تر حصے میں برقرار رکھا، لیکن مودی حکومت نے اچانک 8 نومبر 2018 کو نوٹ بندی کا اعلان کردیا اور تب سے ہی ہماری معیشت زوال کی جانب رواں دواں ہونے لگی۔ اب وزیر اعظم کے اس اعلان کے باوجود کہ وہ شرح نمو کو پٹری پر واپس لائیں گے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، این ڈی اے 1 اور این ڈی اے 2 نے یہ ثابت کردیا ہے کہ معاشی میدان میں جو ٹاسک ہے وہ ان کے بس کی بات نہیں۔

انڈسٹری، ٹریڈ اور کامرس یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایکسپورٹرس، ایم ایس ایمیز کو بھی یہ معلوم ہے ، تعمیراتی شعبہ بھی اس سے بخوبی واقف ہے، ماہرین اقتصادیات کو بھی پتہ ہے۔ یہاں تک کہ اب یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور نقل مکانی ورکرس بھی جانتے ہیں کہ دن بہ دن امیدیں موہوم ہوتی جارہی ہیں اور اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ یہ امید بھی پوری طرح ختم ہوگئی ہے کہ مودی گورنمنٹ معاشی نمو کا احیاء کرنے کے قابل بھی ہوگی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ کسی کا بھی مشورہ سننے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن میں نے امید نہیں چھوڑی۔ وزیر اعظم نے پانچ I کا نعرہ دیا ہے۔ ایک انٹنٹ (ارادہ) ، دوسرا انکلوژن (شمولیت)، تیسرا انفرااسٹرکچر(بنیادی سہولتیں)، چوتھا انوسٹمنٹ (سرمایہ کاری ) اور پانچواں انوویشن (اختراع) لیکن وہ ایک اور سب سے اہم آئی بھول گئے ہیں اور وہ ہے Income ۔ ہمارے ملک میں پچھلے 3 ماہ کے دوران تقریباً 125 ملین افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ اے آئی ایم او سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 35 فیصد ایم ایس ایمیز اور 37 فیصد خود روزگار کے حامل افراد اپنی کاروباری سرگرمیاں بحال ہونے سے متعلق امید کھو بیٹھے ہیں اور کاروبار بند کرچکے ہیں۔ میں وزیر اعظم کو آخر میں یہی مشورہ دوں گا کہ وہ اپنے موجودہ معاشی مشیران کو برطرف کریں اور ایک ایسی نئی ٹیم کی خدمات حاصل کریں جو آپ کو اچھے مشورے دے۔