مغربی بنگال ‘ ٹاملناڈو اور بی جے پی

   

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعوی کیا کہ 2026 میں معربی بنگال اور ٹاملناڈو میں بی جے پی کی حکومت تشکیل پائے گی ۔ ویسے تو مغربی بنگال کے تعلق سے بی جے پی گدشتہ تقریبا پندرہ برسوں سے جدوجہد کر رہی ہے تاکہ وہاں اقتدار حاصل کیا جاسکے تاہم وہاں اسے کامیابی نہیں مل پائی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی نے بنگال میں اپوزیشن سی پی آئی اور کانگریس کے ووٹ ضرور حاصل کئے ہیں اور ان کے موقف کو کمزور کردیا ہے ۔ تاہم ریاست میں ممتابنرجی کی گرفت انتہائی مضبوط ہے اور وہاں ترنمول کانگریس کو اقتدار سے بیدخل کرنا بی جے پی کیلئے ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ جہاں تک ٹاملناڈو کی بات ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کا ریاست میں کوئی سیاسی وجود ہی نہیں ہے ۔ بی جے پی ریاست میں آل انڈیا اناڈی ایم کے کا سہارا لیتے ہوئے اپنے سیاسی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جس طرح بی جے پی ہر ریاست میں فرقہ وارنہ منافرت پھیلاتے ہوئے اپنے آپ کو مستحکم کرنا چاہتی ہے اسی طرح اس نے ٹاملناڈو میں بھی کچھ مسائل پر فرقہ پرستانہ سیاست کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی لیکن جنوبی ہند کی دوسری ریاستوں کی طرح ٹاملناڈو میں بھی بی جے پی کی دال گلنے نہیں پائی ہے ۔ وہاں اسے کوئی سیاسی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ ٹاملناڈو کی سیاست میں بی جے پی اپنے وجود کا احساس دلانے یا اپنی اہمیت منوانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ جس طرح کیرالا میں بی جے پی کا وجود محض برائے نام ہے وہی صورتحال ٹاملناڈو میں بھی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ کیرالا میں بھی دوسری جماعتوں میں عدم استحکام پیدا کرتے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلایا جائے اسی طرح ٹاملناڈو میں بھی حکمت عملی ضرور بنائی گئی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائی ہے ۔ ریاست میں ڈی ایم کے کا اقتدار مستحکم ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی ڈی ایم کے اتحاد کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ آل انڈیا انا ڈی ایم کے اپنے سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے بی جے پی سے اتحاد کیلئے تیار ہوئی ہے لیکن بی جے پی کو اس سے کوئی زیادہ فائدہ ہونے کی امید نظر نہیں آ رہی ہے ۔
ٹاملناڈو ہو یا پھر مغربی بنگال ہو یہ حقیقت ہے کہ وہاں عوام کی پسند کی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹرس ممتابنرجی اور ایم کے اسٹالن عوام کی خواہشات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں ممتابنرجی لگاتار تیسری معیاد کیلئے کامیاب ہوئی ہیں اور تیسری معیاد کیلئے انہیں دوسری معیاد سے زیادہ عوامی تائید حاصل ہوئی ہے اور بی جے پی کی عوامی تائید میں کمی آئی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کیلئے آئندہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی آسان نہیں ہوگی ۔ حالانکہ بی جے پی ریاست کا ماحول بگاڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور فرقہ پرستانہ سیاست کو ہوا دی جا رہی ہے لیکن مغربی بنگال کے عوام کی اکثریت نے بی جے پی کے اس ہتھکنڈے کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ بی جے پی کے بہکاوے میں آنے کیلئے تیار ہیں۔ خود بی جے پی کی صفوں میں اس مسئلہ پر اختلاف رائے دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ بنگال کے کئی قائدین یکے بعد دیگرے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر ممتابنرجی کے ساتھ ہوگئے ہیں اور ترنمول کانگریس میں انہوں نے شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ ٹاملناڈو میں دو علاقائی جماعتیں عوامی ترجیح رہی ہیں۔ آل انڈیا انا ڈی ایم کے کو بھی ریاست میں اقتدار حاصل رہا اور اب ڈی ایم کے برسر اقتدار ہے ۔ ریاست کی سیاست میں کوئی ایسا خلاء نہیں ہے جس کو کسی قومی جماعت کے ذریعہ پر کیا جاسکے ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے ٹاملناڈو کا اقتدار بھی فی الحال ممکنات میں دکھائی نہیں دیتا ۔
سیاسی جماعتیں اپنے طور پر دعوی تو ضرور کرتی ہیں اور عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے لیکن بنگال اور ٹاملناڈو بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہیں۔ ہر دو ریاستوں میں عوام کی ذہنیت فرقہ پرستانہ سوچ سے دور ہی دکھائی دیتی ہے ۔ بنگال میں حالانکہ بی جے پی کو کچھ حد تک عوامی تائید ضرور حاصل ہوئی تھی لیکن وہ اقتدار تک پہونچنے کے خواب نہیں دیکھ سکتی کیونکہ ریاست پر ممتابنرجی کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے ۔ ٹاملناڈو میں بی جے پی کیلئے سفر ابھی بہت طویل ہے اور اس کیلئے اقتدار کے خواب دیکھنا قبل از وقت دکھائی دیتا ہے ۔ دونوں ریاستوں کی صورتحال امیت شاہ کے دعووں کے برعکس دکھائی دیتی ہے ۔