غریبوں کا داخلہ بند، ہزاروں خاندان پریشان، ہر اسمبلی حلقہ میں مسلم زیر انتظام ہاسپٹل کی ضرورت
(اوقافی اراضیات پر کروڑہا روپئے
کے شادی خانے تعمیر)
حیدرآباد : کورونا وائرس کی وباء نے تلنگانہ میں غریب اور متوسط طبقات کو زیادہ تر اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور عوام بہتر علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گریٹر حیدرآباد کے حدود میں کئی ہزار مریض ہوم آئسولیشن میں اپنا علاج کرا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مزید چند ہزار ایسے بھی ہیں جو حکومت کے ریکارڈ میں آنے سے بچنے کے لئے گھروں پر اپنے خانگی ڈاکٹرس کی نگرانی میں زیر علاج ہیں۔ کورونا کی سنگین علامتوں میں سانس کی تکلیف اور آکسیجن کی سطح کا گرجانا ہے ۔ سانس میں تکلیف کی شکایت پر مریض کو فوری ہاسپٹل سے رجوع کیا جانا چاہئے ۔ غریب اور متوسط طبقات سرکاری دواخانوں سے رجوع ہونے میں خوفزدہ ہیں۔ اس لئے سرکاری دواخانے آکسیجن اور وینٹی لیٹر کی سہولتوں سے محروم ہیں جس کے نتیجہ میں بیشتر مریضوں کی موت واقع ہورہی ہیں۔ مریضوں کی ز ندگی بچانے کیلئے جب لوگ کسی خانگی یا کار پوریٹ ہاسپٹل کا رخ کرتے ہیں تو وہاں ان سے لاکھوں روپئے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ معاشی بدحالی کے نتیجہ میں عوام مریضوں کو گھروں پر رکھنے پر مجبور ہیں جس سے گھر کے دیگر افراد کورونا سے متاثر ہورہے ہیں۔ ان حالات میں حیدرآباد میں مسلم زیر انتظام کارپوریٹ دواخانوں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔ حیدرآباد کی مقامی جماعت کے تحت دو ہاسپٹلس موجود ہیں لیکن ان میں کورونا کے مریضوں کا داخلہ کسی اہم شخصیت کی سفارش کے بغیر ممکن نہیں۔ ہر مریض کو شریک کرنے سے گریز کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ دنوں وقف بورڈ کے ایک عہدیدار کو مقامی جماعت کے ہاسپٹل میں شریک کرنے کے لئے بورڈ کے ایک معزز رکن کی سفارش کرانی پڑی ۔
ان دونوں ہاسپٹلس کا یہ حال ہے تو دوسری طرف غیروں کے تحت چلنے والے کارپوریٹ ہاسپٹلس لاکھوں روپئے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عوام کا احساس ہے کہ ملت کے دولت مند اصحاب نے قوم کی تعلیم و صحت سے زیادہ محلات کی طرح شادی خانوں کی تعمیر پر توجہ دی ہے۔ کروڑہا روپئے کی سرمایہ کاری سے شادی خانے تیار کئے گئے جن کا ایک دن کا کرایہ لاکھوں میں ہے۔ اوقافی اراضیات جو مسلمانوں کی بھلائی کے لئے وقف کی گئیں تھیں ان پر ناجائز قبضے کرتے ہوئے عالیشان فنکشن ہالس تعمیر کئے گئے۔ ٹولی مسجد کی بیشتر اراضی شادی خانوں سے پر ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ قابضین کو مقامی جماعت کی سیاسی سرپرستی حاصل ہے ۔ شہر کے بعض مرکزی مقامات پر موجود عالیشان شادی خانوں کی ملکیت کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سرکردہ سیاستداں ان کے مالک ہیں اور کسی اور نام سے چلایا جارہا ہے۔ اگر دولت مند اصحاب نے کروڑہا روپئے معیاری سہولتوں کے ساتھ دواخانوں کے قیام پر خرچ کئے ہوتے تو آج مسلم آبادی والے علاقوں میں سینکڑوں مریضوں کو کورونا سے شفاء یاب کیا جاسکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے صرف معیاری اور بہتر سہولتوں سے آراستہ دواخانوں کو کورونا کے علاج کی اجازت دی گئی ہے ۔ ویسے تو شہر میں مسلم انتظامیہ کے بعض چھوٹے ہاسپٹل موجود ہیں لیکن وہ کورونا کا علاج نہیں کرسکتے۔ کورونا کے علاوہ بھی دیگر امراض کے لئے مسلمانوں کی جانب سے ایک کارپوریٹ ہاسپٹل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلم سرمایہ کار اپنی دولت کو مسلمانوں کی طبی خدمت کے لئے صرف کرتے۔ شادی خانوں کے بجائے اگر ہر اسمبلی حلقہ میں ایک کارپوریٹ ہاسپٹل قائم کردیا جاتا تو آج غریب مسلمانوں کو علاج کے لئے در بدر بھٹکنے کی ضرورت نہ پڑتی۔