ملازمتوں کا بحران

   

Ferty9 Clinic

ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ کئی نوعیت کے ہیں۔ سب سے اولین تو عوام کی صحت کا مسئلہ ہے ۔ اس وائرس کی وجہ سے لاکھوں لوگ متاثر ہوگئے ہیں۔ تقریبا نصف اب بھی دواخانوں میں زیر علاج ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔ ملک کی معاشی سرگرمیاں متاثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ سرکاری خزانہ میں آمدنی نصف سے زیادہ کم ہوگئی ہے ۔ بازاروں میں خرید و فروخت کا تسلسل تھم سا گیا ہے ۔ صنعتی پیداوار متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ اسٹاک مارکٹ میں اتھل پتھل کا سلسلہ جاری ہے ۔ جملہ گھریلو پیداوار انتہائی کم سطح پر پہونچنے کے اندیشے ہیں۔ سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ملازمتوں کا بنتا جا رہا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں کروڑہا لوگ اپنے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ کسی کی ملازمت ختم ہوگئی ہے تو کسی کا کاروبار بند ہوگیا ہے ۔ کوئی اپنی محنت مزدوری سے محروم ہوگیا ہے تو کوئی اپنی کھیتی باڑی کو آگے بڑھانے کے موقف میں نہیں رہ گیا ہے ۔ اس سارے عمل سے کروڑہا لوگ اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ بیرونی ممالک سے واپس آنے والے ہندوستانیوں کا ہے ۔ یہ ہندوستانی جب تک بیرونی ممالک میں رہے انہوں نے نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کی بلکہ کثیر مقدار میں بیرونی زر مبادلہ بھی ہندوستان کو روانہ کیا جس کے ذخائر اب وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اب بیرونی ممالک سے بھی واپس آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہونچ رہی ہے ۔ ہزاروں افراد پہلے ہی وطن واپس آچکے ہیں اور جب باضابطہ بین الاقوامی پروازوں کو بحال کردیا جائیگا تو مزید ہزاروں افراد کی واپسی طئے شدہ امر ہے ۔ جو لوگ ہندوستان سے باہر برسر کار تھے وہ اب یا تو بیروزگار ہوگئے ہیں یا پھر ان کی تنخواہیں کم کردی گئی ہیں۔ ان کی جو یافت رہ گئی ہے اس میں وہ یا تو اپنا گذر بسر کرسکتے ہیں یا پھر اپنے افراد خاندان کا ۔ اس صورتحال میں جو تجزئے کئے جا رہے ہیں ان میں یہ رائے واضح طور پر ابھر رہی ہے کہ بیشتر ملازمین کی اکثریت وطن واپسی کو ہی ترجیح دے گی اور ان کیلئے ہندوستان میں ملازمتیں بھی ایک سنگین مسئلہ ہوگا ۔

مرکزی حکومت کی جانب سے اب تک جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ صرف جزوقتی کہے جاسکتے ہیں۔ تین ماہ سے ملک کورونا سے لڑائی میں مصروف ہے اور عوام کی پہلی سوچ صرف دو وقت کی روٹی اور اپنی و اپنے بچوں کی صحت تک محدود ہوگئی ہے ۔ کسی کے سامنے آگے کے مسائل نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بھی ابھی اس تعلق سے کوئی غور و خوض شروع نہیں کی ہے ۔ حکومت کی جانب سے صرف ہندوستان میں مائیگرنٹس کی واپسی کے مسئلہ سے موثر انداز میں نہیں نمٹا گیا اور ایک سے دوسری ریاست کو سفر کرنے کیلئے مائیگرنٹس جن تکالیف سے گذرے ہیں ان پر عدالتیں تک بے چین ہو اٹھی تھیں۔ حکومتوں کے اقدامات کو مسلسل ناکافی قرار دیا گیا اور حکومت کے رویہ پر تنقیدیں کی گئیں۔ صرف مرکزی حکومت نہیں بلکہ ریاستی حکومتوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھے ہیں اور یہ ایک عام تاثر ہے کہ مائیگرنٹس کے مسئلہ پر حکومتیں پوری طرح بے اثر ہوچکی تھیں۔ اب جبکہ یہ مائیگرنٹس اپنے گھروں کو پہونچ چکے ہیں تو مقامی سطح پر انہیں روزگار فراہم کرنا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایک ایک ریاست کو لوگ واپس ہوئے ہیں۔ انہیںپہلے بھی اپنے مقام پر کوئی روزگار حاصل نہیں ہواتھا یہی وجہ تھی کہ وہ نقل مقام کرگئے تھے ۔اب جبکہ وہ واپس آچکے ہیں ایسے میں انہیں اپنے گاووں اور ٹاونس و شہرو ں میں ملازمتوں کا ملنا آسان نہیں ہے ۔ اگر بیرون ملک سے لوگ واپس آجاتے ہیں تو وہ بھی ایک الگ مسئلہ رہے گا ۔
گذشتہ تین ماہ میں حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔ اب بھی اگر حکومت اس تعلق سے سنجیدگی سے غور شروع کرے اور کوئی حکمت عملی بنانے پر توجہ کرے تو اس کیلئے بھی کچھ وقت لگ سکتا ہے ۔ حکومت کو صورتحال کو قابو سے باہر ہونے سے قبل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کی معیشت دنیا کی تیزی سے ابھرنے والی معیشت رہی ہے لیکن اگر ملازمتوں کے مسئلہ میں تغافل سے کام کیا گیا اور لا پرواہی والے رویہ کو اختیار کرتے ہوئے صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے کام لیا جاتا رہا تو پھر معاشی میدان میں پستی کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکے گا ۔ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔