ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور ان کا حل

   

پروفیسرمحمد اسلم فاروقی
اردو کے مشہور شاعر علامہ اقبال نے ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ کہہ کر ہمیشہ کیلئے ہماری سماجی زندگی کی اہم کڑی خواتین کی اہمیت بیان کردی ہے۔ گھر ایک ادارہ ہے جس میں خاتون خانہ کو گھر کی ہر طرح کی ذمہ داری سنبھالنے اور مرد کو باہر ملازمت یا تجارت کرکے گھر کے اخراجات کی تکمیل کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ لیکن زمانے کے تقاضوں کی تکمیل کیلئے آج خواتین گھر کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ملازمت کی خاطر گھر کے باہر قدم رکھ رہی ہیں اور کسی نے کیا خوب کہا کہ زندگی کی گاڑی کو توازن میں لانے کیلئے ہم اپنا توازن کھو رہے ہیں۔ مسلم ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور حل کیا ہو سکتے ہیں آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔معاشرے میں خواتین کی ملازمت ایک اہم موضوع ہے جو سماجی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ حالیہ دہائیوں میں، تعلیم کے فروغ اور معاشی ضروریات کے پیشِ نظر، مسلم گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد ملازمت کے شعبے میں شامل ہو رہی ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت معاشرے کیلئے مثبت ہے، لیکن اس کے ساتھ کئی مسائل بھی سامنے آتے ہیں جو ان خواتین کی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم مسلم گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پر روشنی ڈالیں گے اور ان کے حل کیلئے عملی تجاویز پیش کریں گے۔ مسلم گھرانوں میں اکثر خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور ثقافتی اقدار کو بھی برقرار رکھیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کیلئے، یہ توقعات ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پردے کی پابندی، گھریلو کام کاج، اور خاندانی توقعات کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ گھرانوں میں، خواتین کے ملازمت کرنے کو اب بھی غیر ضروری یا نامناسب سمجھا جاتا ہے، جس سے ان پر نفسیاتی دباؤ بڑھتا ہے۔ملازمت پیشہ خواتین کو اکثر گھریلو ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی پرورش، گھر کے کام، اور خاندان کے دیگر افراد کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں عام طور پر خواتین پر ہی عائد ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنی پیشہ ورانہ ترقی پر پوری توجہ نہیں دے پاتیں، جس سے کیریئر کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔مسلم خواتین، خاص طور پر وہ جو پردہ یا حجاب کرتی ہیں، کو کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کچھ اداروں میں ان کے لباس یا مذہبی اقدار کو غیر پیشہ ورانہ سمجھا جاتا ہے، جو ان کی ترقی کے مواقع کو محدود کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر مسلم ماحول میں انہیں اپنی مذہبی شناخت کے حوالے سے تعصبات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ملازمت پیشہ خواتین کو طویل کام کے اوقات، گھریلو ذمہ داریوں، اور سماجی دباؤ کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تناؤ، اضطراب، اور تھکاوٹ ان کے لیے عام مسائل ہیں، جو ان کی مجموعی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ خاص طور پر، مسلم خواتین کو مذہبی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میں اضافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگرچہ تعلیم میں بہتری آئی ہے، لیکن کچھ مسلم گھرانوں میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم یا مخصوص پیشوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ، معاشی وسائل کی کمی اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے ان کیلئے تربیتی پروگراموں یا کیریئر کے مواقع تک رسائی مشکل ہوتی ہے ۔ کام کی جگہ پر یا سفر کے دوران حفاظتی مسائل بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ خاص طور پر، عوامی نقل و حمل استعمال کرنے والی خواتین کو ہراسانی یا غیر محفوظ حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسائل ان کی ملازمت جاری رکھنے کی خواہش کو کمزور کر سکتے ہیں۔مسلم گھرانوں میں خواتین کی ملازمت کو قبول کرنے کیلئے سماجی اور خاندانی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خاندان کے افراد کو چاہیے کہ وہ گھریلو ذمہ داریوں میں خواتین کا ساتھ دیں تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی پر توجہ دے سکیں۔ اس کیلئے، مردوں کو گھریلو کاموں میں حسب سہولت تعاون کرنا چاہیے۔ مزید برآں، مسلم علماء اور رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ خواتین کی ملازمت کی اہمیت اور اس کے مذہبی جواز کو واضح کریں تاکہ سماجی تعصبات کم ہوں۔ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کیلئے اداروں کو لچکدار کام کے اوقات متعارف کرانے چاہئیں۔ گھر سے کام کرنے ورک فرم ہوم کے اختیارات اور چھوٹے بچوں کیلئے ڈے کیئر سینٹرز کی سہولت فراہم کرنے سے خواتین کیلئے کام اور گھریلو زندگی میں توازن قائم کرنا آسان ہوگا۔ اس کے علاوہ، اداروں کو چاہیے کہ وہ خواتین کیلئے مذہبی سہولیات، جیسے کہ نماز کیلئے جگہ اور وقت، فراہم کریں۔اداروں کو چاہیے کہ وہ تنوع اور شمولیت کے اصول اپنائیں تاکہ مسلم خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حجاب یا دیگر مذہبی اقدار کو قبول کرنے کیلئے پالیسیاں بنائی جانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ، خواتین کیلئے تربیتی پروگرام اور لیڈرشپ کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنے کیریئر میں ترقی کر سکیں۔خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے اداروں کو تندرستی کے پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔ اس میں تناؤ کے انتظام کے ورکشاپس، مشاورت کی سہولیات، اور صحت مند طرز زندگی کے پروگرام شامل ہو سکتے ہیں۔ مسلم خواتین کے لیے مخصوص گروپس بنائے جا سکتے ہیں جہاں وہ اپنے مسائل پر کھل کر بات کر سکیں۔حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو چاہیے کہ وہ مسلم خواتین کے لیے تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام شروع کریں۔ اسکالرشپس، مفت کورسز، اور کیریئر کونسلنگ کی سہولیات سے خواتین کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر، ان شعبوں میں تربیت دی جانی چاہیے جو خواتین کے لیے زیادہ موزوں ہوں، جیسے کہ تعلیم، صحت، اور ٹیکنالوجی۔خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے، اداروں اور حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ کریں۔ اس کے علاوہ، عوامی نقل و حمل کو محفوظ بنانے کے لیے سیکورٹی اقدامات اور خواتین کے لیے مخصوص بسوں یا ٹرین کے ڈبوں کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔معاشرے میں توازن کے لیے مرد و عورت اگر عصری تقاضوں کو سمجھیں اور ان سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں تو ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور ان کی تدریس طب اور دیگر شعبوں میں ان کی صلاحیتوں سے سماج کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ ملازمت اختیار کرنے کے بعد گھر میں توازن کو بگڑنے نہ دیں اور شادی اور گھر جیسے اداروں کی اہمیت برقرار رہ پائے۔