دو دہوںسے زیادہ وقفہ کے بعد کانگریس کے نئے صدر کا انتخابات کے ذریعہ انتخاب عمل میں آیا ہے ۔ توقعات کے عین مطابق کرناٹک سے تعلق رکھنے والے سینئر لیڈر ملکارجن کھرگے پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ جس وقت سے کھرگے نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا اسی وقت سے کہا جا رہا تھا کہ وہ نہرو۔ گاندھی خاندان کے پسندیدہ امیدوار ہیں اور انہیں کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے ۔ حالانکہ کیرالا سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینئر لیڈر ششی تھرور بھی اس مقابلہ میں موجود تھے لیکن ابتداء سے ہی کھرگے کی کامیابی کے امکانات ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ آج نتائج کا اعلان ہوا اور خاطر خواہ اکثریت سے ملکارجن کھرگے کانگریس کے منتخب صدر بن گئے ہیں۔ اب جبکہ ملکارجن کھرگے پارٹی کے صدر منتخب ہوچکے ہیں لیکن ان کیلئے یہ عہدہ کوئی مخمل کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے ۔ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ کانگریس پارٹی میں اختلافات اور داخلی انتشار و خلفشار کی کیا صورتحال ہے ۔ اس صورتحال کو بہتر بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ کانگریس میں داخلی اختلافات ہمیشہ سے رہے ہیں اور حالیہ عرصہ میں ان میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ پارٹی کے کئی قائدین پارٹی کو اپنی اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔ کسی مستقل اور سرگرم صدر کی عدم موجودگی میں اور سونیا گاندھی کی علالت کی وجہ سے قائدین ایک طرح سے بے لگام ہوگئے تھے ۔ ہر کوئی پارٹی موقف سے ہٹ کر اپنے خیالات ظاہر کرنے کو اپنا حق سمجھ رہا تھا ۔ پارٹی کے مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جا رہی تھی ۔ پارٹی کی انتخابی شکستوں کو کامیابیوں میں بدلنے کیلئے کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھا ۔ پارٹی کی شکست پر تنقیدیں برابر کی جا رہی تھیں۔ کوئی آگے بڑھتے ہوئے ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھا جس طرح راہول گاندھی نے گذشتہ پارلیمانی انتخابات کے بعد اپنی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ حالانکہ انہیں بعد میں دوبارہ پارٹی صدر بنانے کیلئے کئی ریاستی یونٹوں نے رائے ظاہر کی تھی لیکن راہول گاندھی نے یہ پیشکش قبول نہیں کی ۔ ملکارجن کھرگے کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے اور مشکل بھی ہے ۔ انہیں اپنا تجربہ بروئے کار لانا ہوگا ۔
اس کے علاوہ کانگریس پارٹی کو عوام کے درمیان لانے کی بھی ذمہ داری ملکارجن کھرگے پر عائد ہوگئی ہے ۔ کھرگے ایک سینئر لیڈر ہیں ۔وہ عوامی نبض کو بھی سمجھتے ہیںتاہم انہیں بدلتے تقاضوںکے مطابق پارٹی کو ڈھالنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ پارٹی کی ذیلی یونٹوںاورمحاذی تنظیموںکو متحرک کرنا ہوگا اور یہ کام بھی آسان نہیںکہا جاسکتا ۔ پارٹی سے عوام کو قریب کرنے کیلئے حکمت عملی بنانی ہوگی اور یہ حکمت عملی موثر ہونی چاہئے ۔ جس طرح راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں کہ عوام سے ایک بار پھر کانگریس کا رابطہ بحال ہوجائے اسی طرح کئی اور بھی پروگرامس کرنے ہونگے ۔ عوام میں کانگریس کے تعلق سے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا ۔ عوام میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس ہی ملک بھر میں بی جے پی کا متبادل ہوسکتی ہے ۔ کچھ ریاستوں میںضرورعلاقائی جماعتوں کی اہمیت ہے اور ان کو بھی ساتھ لینا ہوگا ۔ بحیثیت قدیم اور قومی پارٹی کانگریس کو کئی معاملات میںآگے آنے کی ضرورت ہوگی ۔ انتخابات میں ہونے والی مسلسل شکستوں کا سلسلہ روکنے کیلئے پارٹی کو جامع اور کارگر حکمت عملی بنانی ہوگی ۔ عوام تک رسائی کے ذرائع تلاش کرنے ہونگے اور ان کا موثر استعمال کرتے ہوئے پارٹی کو اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے ۔
جہاں ملکارجن کھرگے پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے اور ان کے پاس آئندہ انتخابات کیلئے تیاری کرنے کا زیادہ وقت بھی نہیں رہ گیا ہے وہیں خود پارٹی اور سینئر قائدینپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئے صدر سے تعاون کریں۔ ان کے پروگرامس اور اقدامات کو سمجھیں اور ان کو عوام میں لانے میں اپنی جانب سے ممکنہ حد تک جدوجہد کریں۔ جب تک پارٹی کے نئے صدر اور دیگر تمام قائدین پارٹی میں نئی جان ڈالنے کیلئے ایک رائے نہیں ہوجاتے اس وقت تک حالات کو بدلنا آسان نہیں ہوگا ۔ کانگریس نے صدر کا انتخاب کرتے ہوئے جہاں ایک قدم آگے بڑھایا ہے وہیں اب کئی محاذوں پر مشترکہ حکمت عملی بناتے ہوئے اسے حرکت میں آنے اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔