ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی ؟

   

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی ؟
جب ملک میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت اگر عوام ہی کی آواز کو دبانے اور کچلنے کیلئے طاقت کے بے دریغ استعمال پر اتر آئے تو ملک میں ایمرجنسی جیسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے اور آج یہی صورتحال سارے ہندوستان میں پائی جاتی ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے ملک کے عوام کی مخالفانہ آوازوں کو دبانے اور کچلنے کیلئے طاقت کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ احتجاج کو سبوتاج کرنے کیلئے بھی پولیس اور کرایہ کے غنڈوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ آج ہندوستان کے کئی شہر ایسے ہیں جہاں شہریت ترمیمی قانون ‘ این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے ۔ عوام سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور موسم کی سختی کی پرواہ کئے بغیر صدائے احتجاج بلند کرتے جا رہے ہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مرکزی حکومت اس احتجاج کو طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جہاں تک اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت کا سوال ہے وہ تو مودی حکومت سے بھی ایک قدم آگے دکھائی دے رہی ہے ۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت میں ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش پولیس راج میں بدل کر رہ گیا ہے ۔ علیگڈ ھ مسلم یونیورسٹی سے اٹھنے والے احتجاج کو طاقت کے بل پر کچلنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ طلبا کو دہشت گردوں کی طرح نشانہ بنایا گیا ۔ اسی طرح اترپردیش کے مختلف شہروں میں احتجاج کیلئے سڑکوں پر اترآنے والے عوام پر گولیاں برسائی گئیں ۔ احتجاجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ انہیں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے اور انہیں سے سرکاری املاک کو نقصان کا ہرجانہ وصول کیا گیا ۔ عوام کو احتجاج سے دور رکھنے کیلئے ان کی جائیدادیں نیلام کردی گئیں۔ یہ کارروائیوں انگریز سامراج کی کارروائیوں سے کسی بھی صورت میں مختلف نظر نہیں آتی تھیں ۔ آدتیہ ناتھ حکومت کو مرکز کی مودی حکومت کی بھی سرپرستی حاصل ہے اور دونوں حکومتوں نے ریاست ہی کے عوام کو دشمن رعایا جیسا سلوک کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے ۔جمہوری طرز حکمرانی میں ایسا رویہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ اب اترپردیش پولیس غیر انسانی سلوک پر بھی اتر آئی ہے ۔ لکھنو کے کلاک ٹاور علاقہ میں دہلی کے شاہین باغ کی طرز پر خواتین نے مرکز کے ان سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا ۔ عوام کو احتجاج سے دور رکھنے انتہائی شدید سردی میں وہاں موجود خواتین کی بلانکٹس کو اترپردیش پولیس نے چھین لیا ۔ خواتین کیلئے وہاں پہونچائی گئی غذا کی پیاکٹس کو یو پی پولیس چھین کر لے گئی ۔ انتہائی شدید سردی میں حکومت کی ایما پر اترپردیش کی پولیس جو رویہ اختیار کی گئی ہے وہ انسانیت کو رسوا کرنے والا ہے ۔ یہ رویہ غنڈہ عناصر سے بھی گیا گذرا کہا جاسکتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو احتجاج چل رہا تھا وہ انتہائی پرامن تھا ۔ وہاں موجود احتجاجی صرف اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے اور دستور نے ملک کے عوام کو قانون و دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کی پوری اجازت دی ہے ۔ اسی اجازت اور حق کا وہاں استعمال ہو رہا تھا لیکن اترپردیش پولیس کیلئے یہ بھی قابل برداشت نہیں ہوا اور وہ خواتین کی بلانکٹس تک چھین کر لے گئی ۔ ان کی غذائیں پیکٹس کو تک چھین لیا گیا ۔ اترپردیش پولیس راج والی ریاست میں بدل کر رہ گئی ہے ۔ میڈیا میں شائد اس بات کی کوئی خبر نہ آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا جو حلقہ انتخاب وارناسی ہے وہاں ایک سال کے 365 ایام میں 340 دن سے زیادہ عرصہ تک دفعہ 144 نافذ کیا گیا تھا ۔ کیا اس ملک میں پولیس کا راج چل رہا ہے اور کیا عوام کے جمہوری حقوق تک کچلے جا رہے ہیں ؟۔ یو پی کی طرح دہلی میں بھی پولیس نے ‘ جو نریندرمودی حکومت کے تحت آتی ہے ‘ قومی سلامتی قانون نافذ کر رکھا ہے ؟ ۔ یہ کس طرح کا ماحول ملک میں پیدا کیا جا رہا ہے ۔ اپنے ہی ملک کے عوام کو ‘ جن کے ووٹوں سے حکومت قائم ہوئی ہے ‘ دشمن ملک کی عوام کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور انہیں جمہوری اور دستوری حقوق کے استعمال سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ نریندرمودی اور دوسری بی جے پی ریاستی حکومتوں کے خوف کی علامت ہے ۔ یہ حکومتیں عوام کو ان کے حقو ق سے محروم کرتے ہوئے ان کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آج ہندوستان کے عوام اپنے حق کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ ہندوستان کی روایت ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے پرامن احتجاج کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور طاقت میں یقین رکھنے والی حکومتوں کو عوام کے آگے جھکنا پڑیگا۔