اوروں کی ضرورت پہ نظر جاتی بھی کیسے
ہم اپنے مفادات کے ملبے میں دبے تھے
ملک میں میڈیا میں جانبداری
صحافت یا میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے ۔ میڈیا کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقائق کو غیر جانبداری کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کرے اور عوام کو جمہوری عمل میں حصہ دار کے تعلق سے فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے ۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری نہیں ہوتی کہ کسی کے مذہب کو نشانہ بنائے ۔ کسی کے لباس کی وکالت کرے یا پھر کسی کی غذائی عادات کی وجہ سے اس سے امتیاز کیا جائے ۔ سماج کے ایک بڑے طبقہ کو حاشیہ پر لانے کی کوششیں بھی میڈیا کی ذمہ داری نہیں ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کا پردہ فاش کرنا میڈیا کا کام ہوتا ہے ۔ کسی بھی ملک میں آزاد اور غیر جانبدار میڈیا وہاں کی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنتا ہے ۔ ہندوستان میں تاہم حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ میڈیا کی غیر جانبداری مشکوک ہی نہیں بلکہ ختم ہونے لگی ہے ۔ میڈیا بھی اب دھڑلے کے ساتھ سیاسی وابستگی کا اظہار کرنے لگا ہے ۔ مذہب کی تشہیر اور پروپگنڈہ کا ذریعہ بن گیا ہے اور کسی بھی مذہب یا ذات پات کے ماننے والوںکو نشانہ بنانے میںمیڈیا بھی مفادات حاصلہ سے کہیںپیچھے نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ اس معاملے میں سب سے آگے دکھائی دینے لگا ہے ۔ صحافت یا میڈیا کا اپنا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ وہ عوام کو مختلف سیاسی نظریات کو سمجھنے ‘ ان کے مثبت و منفی پہلووں کو اجاگر کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ ہندوستان میں دیکھا جارہا ہے کہ میڈیا اب غیر جانبدار نہیں رہ گیا ہے بلکہ وہ تقریبا ہر معاملے میں ایک فریق بن گیا ہے ۔ کسی کو نشانہ بنانے ‘ کسی کو چینل پر بیٹھ کر رسواء کردینے اور کسی سیاسی نظریہ کو فریق بنتے ہوئے فروغ دینے کی روایت کو عام کردیا گیا ہے ۔ یہ صورتحال ملک میں جمہوری عمل کو کھوکھلا کرنے کی وجہ بن رہی ہے ۔ اس کے علاوہ میڈیا کی جو اہمیت ہوا کرتی تھی وہ بھی کم ہونے لگی ہے ۔ صحافت اور میڈیا کو اب صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنادیا گیا ہے ۔ صنعتی گھرانے میڈیا چینلس خرید کر میڈیا کی اہمیت کو متاثر کرچکے ہیں اور وہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اس کا نہ صرف حصہ بن گئے ہیں بلکہ انہوں نے اس پیشے پر اجارہ داری بھی بنالی ہے ۔
ہندوستان میں فی الحال سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ پارلیمانی انتخابات چل رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں عوام سے رجوع ہونے میں مصروف ہیں۔ ریلیاں ‘ جلسے یاترا اور روڈ شو کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ ایسے میں ہمارے میڈیا کا جہاںتک سوال ہے تو وہ جانبدار ہوگیا ہے ۔ میڈیا کو ایک مخصوص نہج پر چلایا جا رہا ہے ۔ ایک سوچ کو عوام پر مسلط کرنے کی ذمہ داری میڈیا کو سونپ دی گئی ہے اور میڈیا گھرانے اس معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر اور ایک مخصوص ڈھنگ سے پیش کرنے کی مہارت حاصل کی جارہی ہے ۔ کسی ایک سیاسی جماعت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے دوسروں کو نیچا دکھانے کا سلسلہ دراز اور عام ہوگیا ہے ۔ کسی ایک کی محض مثبت تشہیر کرتے ہوئے اس کی منفی امور کو نظر انداز کیا جارہا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں عوام کی نظروںسے اوجھل کرنے کیلئے مذہب کا کارڈ کھیلتے ہوئے عوام کوگمراہ کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے میڈیا چینلس کئی مہینوں میں ایک بار بھی عوام کو درپیش مسائل مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ ملک اور قوم کی ترقی ‘ خواتین کی بہتری ‘ کسانوں کی آمدنی ‘ علاج و معالجہ کی سہولیات ‘ تعلیم کی مہنگائی جیسے امورپر مباحث کرتے نظر نہیں آتے لیکن ان چینلس پر تقریبا روز ہی ہندو ۔ مسلم کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ایجنڈہ کا حصہ ہے اور ایک مخصوص نظریہ کو عوام کے ذہنوں میں انڈیلنے کے مقصد سے ایسا کیا جاتا ہے ۔ یہ انتہائی منفی سوچ کی عکاسی ہے ۔
ہندوستان ‘ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے ۔ اس کی انفرادیت ہے ۔ اسے دنیا بھر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ تاہم اس جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کی ترکیبیں کی جا رہی ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین دراڑیں پیدا کرنے کیلئے میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے دستوری اور قانونی اداروں پر اجارہ داری اور تسلط سے آنکھیںموندی جا رہی ہیں اور مخصوص سیاسی نظریہ کو پروان چڑھاتے ہوئے مکمل جانبداری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا گھرانوں اور میڈیا اینکرس کو اپنے رول کو اور اپنی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کے اشاروں پر نہیں بلکہ عوام کی بھلائی کیلئے انہیں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔