نہ پوچھو دل سے مرے، تیرے بعد کیا گزری
میں کورونا کی قیامت سے خوب واقف ہوں
مختلف جنوبی ایشیائی ممالک میں کورونا کے نئے کیسوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا جس کے بعد اب ہندوستان میں بھی کورونا کے نئے کیس رپورٹ ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ مختلف ممالک میں گذشتہ مہینے سے ہی کورونا کیس رپورٹ ہونے شروع ہوئے تھے اور وہاں یہ تیزی کے ساتھ وباء بھی پھیل رہی تھی ۔ مقامی سطح پر وباء پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے گئے لیکن کیسوں کی تعداد میں اضافہ کا سلسلہ برقرار ہی رہا ہے ۔ اب ہندوستان میں بھی کورونا کے کیس رپورٹ ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں بارہ سو سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ ملک کی چند ریاستوں میں یہ وائرس ایک بار پھر تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ہے اور عوام میں اس تعلق سے تشویش بھی پیدا ہو رہی ہے ۔ لوگ کورونا کی سابقہ لہروں کے تجربات کو پیش نظڑ رکھتے ہوئے اس بار بہت زیادہ تشویش اور پریشانی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ کورونا وباء نے ساری دنیا میں دو لہرں میں جو تباہی مچائی ہے وہ دنیا فراموش نہیں کرسکتے ۔ لاکھوں افراس س وباء کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے تھے ۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی بے تحاشہ تباہی کورونا کی دو لہروں میں دیکھنے میں آئی تھی ۔ ہندوستان میں بھی ہزاروں بلکہ لاکھوںافراد اس وباء کی وجہ سے جان گنوا بیٹھے تھے ۔ صورتحال اس حد تک بگڑ گئی تھی کہ شمشان گھاٹوں میں نعشیں جلانے کیلئے تک جگہ نہیں تھی ۔ نعشیں جلانے کیلئے لکڑی کی قلت پیدا ہوگئی تھی ۔ اس کے علاوہ قبرستانوں میں بھی تواتر کے ساتھ تدفین عمل میں لائی جا رہی تھی ۔ کئی گھر اجڑ گئے ۔ کئی خاندان بکھر کر رہ گئے تھے اور دواخانوں کی صورتحال تو سب سے زیادہ ابتر دیکھنے میں آئی تھی ۔ کئی دواخانوں کے باہر قطار میں لگے مریض جان گنوا بیٹھے تھے ۔ کئی دواخانوں میں آکسیجن کی سہولت نہ ملنے سے بھی کئی اموات ہوئی تھیں۔ لوگ اپنے گھروںکو واپس جاتے ہوئے ٹرینوںسے کچلے بھی گئے تھے ۔ یہ سارا ہندوستان کے عوام نے برداشت کیا تھا اور اب ایک بار پھر سے کورونا کی لہر کے اندیشے سر ابھارنے لگے ہیں اور عوام اس تعلق سے تشویش کا شکار ہونے لگے ہیں۔ وہ اندیشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
تاہم ڈاکٹرس اور ماہرین کے علاوہ حکومت کا بھی کہنا ہے کہ اس بار کورونا کے جو کیس رپورٹ ہو رہے ہیں ان میں وائرس کی شدت نہیں ہے ۔ یہ کمزور قسم کا وائرس ہے اور عوام کو اس تعلق سے تشویش کا پریشانی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تاہم چونکہ اب تازہ اعداد و شمار کے مطابق ایک دن میں ایک ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیںایسے میں عوام فکرمندی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ تاہم عوام کو اس معاملے میں چوکسی اور احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ چونکہ وائرس میں زیادہ شدت نہیں ہے اور اس کے نتیجہ میںاموات کے اندیشے بہت کم ہیں اس لئے پریشانی کی بات نہیں ہے ۔ تاہم عوام کو اپنے طور پر احتیاط اور چوکسی برتنے سے گریز نہیںکرنا چاہئے ۔ جتنا ممکن ہوسکے احتیاط کرتے ہوئے خود کو اور اپنے رشتہ داروں کو اس وائرس سے بچانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ ڈاکٹرس اور ماہرین کی جانب سے جو کچھ بھی ہدایات جاری کی جائیں ان کی پابندی کی جانی چاہئے اور نہ خود سوشیل میڈیا پر ہونے والے پروپگنڈہ کا شکار ہوں اور نہ دوسروںکو اس کا شکار ہونے دیں۔ احتیاط اور چوکسی کے ذریعہ اس وائرس سے بچا جاسکتا ہے ۔ غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہوتے ہوئے مسائل میں پھنسنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ حکومت کی جانب سے بھی عوام میں شعور بیداری پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ عوام کیلئے رہنما خطوط جاری کئے جانے چاہئیں۔ احتیاطی اقدامات کی تفصیلات سے ملک کے عوام کو واقف کروانے کی بھی ضرورت ہے ۔
سابق کی دو لہروں کے تجربت کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو بھی مستعدی کے ساتھ اس صورتحال سے نمٹنا چاہئے ۔ دوخانوں کو مریضوں کی اضافی تعداد سے نمٹنے کیلئے تیار رکھا جانا چاہئے ۔ دواخانوں میں تمام بنیادی اور ضروری سہولیات فراہم کی جانی چاہئے ۔ آکسیجن کی فراہمی کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے ۔ ان سب کے ساتھ عوام میں حوصلہ برقرار رکھنے کیلئے شعور بیداری پر زیادہ توجہ دی جانی چہائے تاکہ عوام اپنے طور پر اس وائرس سے بچنے میں کامیاب ہوسکیں۔ عوام اور حکومت دونوںکو ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خوفزدہ ہونے کی بجائے تحمل اور احتیاط سے کام کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔