سارے شہریوں اور خاص کر مسلمانوں پر اس کی حفاظت کی ذمہ داری
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، اس کی بقاءو ترقی آئین و دستور کی حفاظت میں مضمر ہے ،ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور دستور نے ہر ایک کو اپنے مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت کی خصوصی شناخت کے ساتھ یہاں رہنے کا حق دیا ہے جب تک حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے امن و آمان برقرار رہتا ہےاور جب حقوق چھینے جاتے ہیں تو پھرامن و آمان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ،اس ملک میں دلت طبقہ تو برسوں سے ظلم و ستم کی چکیّ میں پس رہا ہے ، آر ایس ایس کے ذمہ دار موہن بھاگوت سےمنسوب ’’بھارت کا نیا سمیدہان‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر الکٹرانک میڈیاپر گشت کررہی ہے ،جس میں انہوں نے مذہبی بنیادوں پرہندوستانی شہریوں کی درجہ بندی کی ہے ، برہمن قوم کو پہلے زمرہ میں رکھا ہے اور ان کے اعلیٰ حقوق تسلیم کئے ہیں ،دوسرے نمبر پر چھتری اور ٹھاکر سما ج ہے، ان کے مراعات برہمنوں سے کم رکھے گئے ہیں ، تیسرے درجہ میں ویش یا بنیا وغیرہ کہلانے والے لوگ ہیں ، ان کے حقوق دونوں سے کم تر مانے گئے ہیں، چوتھے درجہ میں جن کو شامل کیا گیا ہے ان کو ’’شودر‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، اس زمرہ میں بدھ ، جین ، سکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر دھرموں کا پالن کرنے والوں میں انوسوچت جاتی ،انوسوچت جن جاتی ،بچھڑی ذاتیوں کے لوگ جیسے یادو ، جاٹ ، گجر، کرمی ، کمہار، نائی اور جو کسی طبقہ میں نہیں ہیں جیسے کائستھ ، پنجابی وغیرہ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی اس میں شمولیت کی بات کہی ہے ۔ خواتین خواہ وہ کسی بھی طبقہ کی ہوں وہ پہلے تین زمروں میں شریک ہی نہیں ہوسکتیں ،چوتھے طبقہ میں ہی رہنا ان کا مقدر ہے کیونکہ ان کا کام صرف بچے پیدا کرنا ہے اس لئے ہندو دھرم کے مطابق ان کا کوئی ادھیکار ہی نہیں ہے ، اس طرح انہوں نے گویا ’’شودر‘‘ طبقہ کو بڑی وسعت دے دی ہے ،اور بتایاہےکہ ووٹ ڈالنے پڑھنے ،لکھنے اوردوسرے تین طبقات پرانگشت نمائی کرنے کا اسے (شودرکو)کوئی حق نہیں ہے ،اگر درج بالا تین طبقات میں سے کوئی اس پر ظلم و زیادتی کرے تب بھی زبان کھولنے کی اجازت نہیں ، جرائم پر بھی سزائوں کی درجہ بندی کی گئی ہے ،برہمن چاہے جتنا ظلم و ستم ڈھالیں اور جرائم کا ارتکاب کریں ان پر کوئی داروگیر نہیں ہوگی،دوسرے اور تیسرے طبقات کی سزائیں درجہ بندی کے ساتھ تجویز کی گئی ہیں ، یعنی دوسرے طبقہ کو کم سزائیں اور اس کے مقابل تیسرے طبقہ کو زیادہ سزائیں دی جاسکتی ہیں۔چوتھے طبقہ کیلئے جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں، وہ انتہائی غیر انسانی ہیں،ایسے محسوس ہوتا ہےکہ گویااس کی حیثیت حیوانات وحشرات الارض سے بھی گئی گزری ہے، تفصیل کی اس مضمون میں گنجائش نہیں، الغرض جب سے مرکز میں بی جے پی حکومت قائم ہوئی ہے اس لئے آر ایس ایس کے غیر جمہوری نظریات کو اور بڑھاوا ملا ہے ،اب تک دلت بھائیوں کے ساتھ غیر انسانی مظالم ڈھائے جاتے رہے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔’’شودر‘‘ کی فہرست میں شامل کئی ایک طبقات میں سے فی الوقت مسلم بھائیوں کو نشانہ پر رکھا گیا ہے۔شدید امکان اس بات کا ہے کہ ’’شودر‘‘ طبقہ میں جن جن کو شامل کیا گیا ہے وہ بھی بتدریج ظالمانہ قوانین کی زد میں آئینگے ،اس وقت جن قوانین کو شہریوں کی مرضی جانے بغیر صرف ایوانوں میں اپنی کثرت کے گھمنڈ میں منظور کروالیا گیا ہے ، ان کے نفاذ کی تیاری میں حکومت کے کارندے سرگرم عمل ہیں ، ہندوستان بھر میں اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے ، چونکہ یہ قوانین انسانیت سوز اور دستور و قانون کی رو سےبھی ظلم پر مبنی ہیں،ا س لئے سار ے شہریوں کا چین و سکون رخصت ہے ،۲۰۱۴ء سے اب تک دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی قوانین طاقت کے بل بوتے پر ایوانوں سے منوالیئے گئے ہیں،جن کی ضرب خاص کر مسلمانوں پر پڑ رہی تھی اور اب جو قوانین سی اے اے ، این آر سی، این پی آر کو بزوروجبرملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس نے ملک کے تمام سنجیدہ شہریوں کو چوکنا کردیا ہے اور سب کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ ’’آج وہ کل ہماری باری ہے ‘‘کے مصداق ملک کی اکثریت اس کی زد میں آنے والی ہے ، چنانچہ آر ایس ایس کے ذمہ دار کا پیش کردہ سمیدھان صرف برہمن قوم کا محافظ معلوم ہوتا ہے باقی سب کے سروں پر خطرہ کی گھنٹی بج رہی ہے ، چوتھے زمرے میں شودر کے نام سے جن کو شامل کیا گیا ہے ان میں کئی ایک ذاتوں اور مذاہب پرعمل کرنے والوں کو شریک کردیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ تو ان کےغیر انسانی نظریہ کے مطابق انسان کہلانے کے مستحق ہی نہیں ہیں تو پھر ان کے حقوق کیا معنی،یہی وہ آفت و مصیبت ہے جو اس وقت حکومت کے ذمہ داروں کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے ، اس وقت پورا ملک ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کے ذمہ دار اور وہاں کے شہری بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کئے ہوئے ہیںاور اب جاریہ ہفتہ یوروپین پارلیمنٹ میں ہندوستان کے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بائیں بازو کے گروپ کی جانب سے بحث کیلئے قرار داد پیش کی جاچکی ہے ،بروز چہارشنبہ اس پر بحث ہوگی۔اقوام متحدہ کے چارٹر انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی دفعہ ۱۵ اور ہند ۔یوروپی یونین دفاعی شراکت داری مشترکہ لائحہ عمل کے مطابق سی اے اے کی مخالفت کی گئی ہے انسانی حقوق کے حوالے سے ہندوستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج جاری رکھے ،ہوئے ہیں ان کے ساتھ با معنی مذاکرات کئے جائیں اور ان کے مطالبات قبول کرتے ہوئے اس قانون کو منسوخ کیا جائے ، ظاہر ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے نتیجہ میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ شہریت سے محروم ،بے گھر و بے وطن ہوجائیں گے اور ساری دنیا میں یہ ایک سنگین انسانی بحران کا سبب بنے گا اور انسانوں کو ناقابل بیان و ناقابل تصور مسائل و مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا، احتجاجیوں کی بات سننے اور ا ن کے مطالبات پر غور کرنے اور کوئی قابل قبول لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے حکومت کے ذمہ داروں کاہندوستان کی سیکوریٹی فورسس کو احتجاجیوں پر مسلط کرنا اور ان کو ڈرانے دھمکانے بلکہ ظلم و ستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دینا منصفانہ نظام حکومت کے خلاف ہونے کی وجہ جمہوری حکومت کو ہر گز زیبانہیں ستم بالائے ستم سی اے اے کے علاوہ این آر سی نافذ کرکے ظاہر ہے مسلمانوں کی علحدہ شناخت کی جائے گی ،انہیں نشانہ بناتے ہوئے ملک بدر کئے جانے کا شدید خطرہ بھی لاحق ہے ، سیاسی بصیرت کے حامل دانشوروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت کی غیر انسانی و غیر دستوری اور غیر جمہوری پالیسیوں نے بیرونی دنیا میں ملک کی شبیہ سخت مجروح کردی ہے ،جس کی وجہ بیرونی سرمایہ کاری مسلسل کم ہوتی جارہی ہے ، بیروزگاری آسمان کو چھورہی ہے ، کبھی شرح ترقی ۹فیصد تھی جو موجودہ دورِ حکومت میں ۵ فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے ،ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، اس کا حسن اور اس کی خوبی اس کی حفاظت میں مضمر ہے ، اس وقت ہمارا ملک جن حالات سے دوچار ہے یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے پہلے انگریزوں نے اس ملک کے شہریوں پر ظلم ڈھائے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا تھا یہاں تک کہ ان کی آزادی چھینی، ان کو مظلوم و مجبور بن کرمقہوریت کا عتاب جھیلنے پر مجبور کیا اور ان کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی ناپاک کوشش کی تھی ،لیکن قربان جائیں اس وقت کے علماء و قائدین اور دانشوران ملک و ملت نے انگریزوں کے خلاف متحد ہ جدوجہد کی ،جان و مال کی قربانیاں دیں جس کے نتیجہ میں آزادی حاصل ہوئی ، اس وقت کے حالات کا سنجیدہ جائزہ لیا جائے تو ایسا ہی کچھ منظر نامہ دنیا کو دکھائی دے رہا ہے ، فرق یہ ہے کہ پہلے مظالم ڈھانے والے انگریز تھے اور اب انسانی اعمال کی سیاہ کاریوں کی پاداش میں ملک کی باگ ڈوراللہ سبحانہ نے جن غیر انسانی و غیر منصفانہ روش پر چلنے والوں کے ہاتھوں میں دے دی ہے وہ سب پر عیاں ہےاور یہ اُس وقت آزادی کی جنگ لڑنے والوں میںشامل نہیں تھے بلکہ آزادی کی مخالفت میں انگریز حکومت کی خدمت میں دبکی نامہ پیش کرکے اپنی اٹوٹ وفاداری کا ثبوت پیش کرچکے تھے،اس لئے وہ بھی انگریزوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کو انتشار کے دوراہے پر کھڑا کر چکے ہیں،ان سیاہ قوانین کے نفاذ کی مکروہ کوششوں کے خلاف دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ملک کے شہریوں کا احتجاج بالکل بجا ہے ،اس کو ملک کے آئین کے خلاف قرار دینا اور اس احتجا ج کو سبوتاج کرنے کی کوششیں کرناگویاغیر انسانی اور ظلم پر مبنی بلکہ دستور کے دیئے گئے حق آزادی کو سلب کرنا ہے ۔ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اسلام نے ان کو ظالموں کا ہاتھ تھامنے اور مظلوموں کی مدد کرنے کی تعلیم دی ہے ،مظلوموں کا ساتھ دینے کے بجائے چپ سادھے بیٹھے رہنا بھی اسلام گوارہ نہیں کرتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’ظالموں کی جانب ذرا بھی نہ جھکوورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائوگے اور تمہیں ایسا ولی وسرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچاسکے اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی ‘‘ ( ھود /۱۱۳) یہ بات مسلّم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے والے بہت بڑے ظالم ہیں ان کے ساتھ کسی طرح کی رواداری اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے ،وسیع تر تناظر میں پورے انسانی سماج کو ظلم کی تاریکیوں میں ڈھکیل دینے کی منصوبہ بند سازش کرنے والے بھی کچھ کم ظالم نہیں ،ان کی حمایت کی بھی اسلام اجازت نہیں دیتا ، اس کی ممانعت اس لئے کی گئی ہے کہ ظلم پر خاموشی یا اس کی طرف کوئی جھکائو ظلم کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بنتا ہے جس سے ظالموں کے حوصلے مزیدبلند ہوتے ہیں ، پھر وہ کسی تردد اور خوف کے بغیر انسانوں پر ظلم ڈھانے کے نت نئے طریقہ اپنا ناشروع کردیتے ہیں ، مظلوموںپر ہونے والے مظالم سے آنکھیں موند لینے سے مظلوم مزید مظلومیت کا شکار ہوجاتے ہیںاور ظالم کا ظلم اس کے حق میں تمغہ افتخار بن جاتا ہے ، ہر دور میں ضمیر فروش رہے ہیں جو ایسا غیر انسانی رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ حدیث پاک میں وارد ہے ۔ ’’جس نے ظالم کی مدد کی تاکہ اس کے باطل کو حق ثابت کرے تو اس سے اللہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذمہ ختم ہوگیا ‘‘۔اب جبکہ غیر انسانی و غیر دستوری متنازعہ قوانین منظور کرلیئے جانے کی وجہ ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے ،نہ صرف اس کا ساتھ دینا بلکہ قائدانہ کردار ادا کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے اورسارے شہریوں کابھی فرض ہے کہ وہ آئین و دستور کے تحفظ کیلئے جان توڑ کوشش کریںتاکہ ملک کا دستور و قانون جو دائو پر لگ گیا ہے اس کی حفاظت ہو اور ملک کا امن و آمان بحال ہو۔