ملک کا سیاسی ماحول

   

Ferty9 Clinic

پوچھو نہ ہمیں ہم ان کیلئے کیا کیا نذرانے لائے ہیں
دینے کو مبارکباد انہیں آنکھوں میں یہ آنسو آئے ہیں
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور دنیا کی بڑی جمہوریت کہلاتا ہے ۔ جمہوری عمل میں سیاسی جماعتوں کا ایک اہم اور ذمہ دارانہ رول ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ملک اور ملک کے عوام کی بہتری کیلئے کام کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ یہ دعوی بھی اسی طرح کاکرتی ہیں تاہم ملک میں اب دیکھا جا رہا ہے کہ سیاسی کو شخصی عداوت اور دشمنی کی حدوں تک منتقل کردیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتیںا ور قائدین ہندوستان میں پہلے بھی ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے کام کرتے رہے ہیں۔ سیاسی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اور ان کے جذبات کی قدر کی جاتی رہی تھی ۔ سیاسی نظریہ مختلف ہونے کے باوجود ملک اور ملک کی ترقی میں ایک دوسرے کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے کے کام کی سراہنا کی جاتی تھی اور سیاسی اختلاف کے باوجود ایک خیرسگالی کا ماحول ہوا کرتا تھا ۔ یہ ایک صحتمندانہ سیاسی ماحول کہا جاتا تھا تاہم بدلتے وقتوں نے ملک کی سیاست کو بھی انتہائی منفی صورتحال کا شکار کردیا ہے ۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کو اختلاف رائے کی وجہ سے شخصی دشمن کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کی صلاحیتوںاور خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے ان کی عیب جوئی کرنے لگے ہیں اور ان کی کردار کشی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ عوامی مسائل پر ایک دوسرے کے ذمہ دارانہ رول کے ذریعہ آگے بڑھنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں زیادہ توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ ملک بھر میں ماحول انتہائی منفی ہوگیا ہے اور سیاسی جماعتوں اور قائدین کیلئے ایسا لگتا ہے کہ سوائے ایک دوسرے کو ذلیل و رسواء کرنے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے کوئی اور کام نہیں رہ گیا ہے ۔ کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا اور پھر اقتدار ملنے کے بعد اس کو برقرار رکھنے کیلئے ہر ہتھکنڈہ اور ہر حربہ اختیار کرنا ہی سیاسی قائدین کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ ملک و قوم کی ترقی اور تعمیر میں اپوزیشن کی رائے حاصل کرنے کی روایت اب قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔ صحتمندانہ مخالفت کو قبول کرنے کی بجائے اسے شخصی دشمنی کی حدوں تک لیجایا جا رہا ہے اور یہ سارا کچھ ملک کی سیاست اور ملک کی جمہوریت کیلئے اچھی علامت ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔
ملک کی سیاست میں جب کبھی اختلافات نے شدت اختیار کی تھی وہ نظریاتی بنیادوں پر ہوا کرتی تھی ذاتیات کی بنیاد پر کبھی ایسا نہیں کیا گیا ۔ یہ مثالیں موجود ہیں کہ دو علحدہ جماعتوں میں رہنے والے قائدین ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہوا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کی قدر کیا کرتے تھے اور اس کا سر عام اظہار بھی کیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کی سیاست کو پستی میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ پالیسیوںاور اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کو دشمن کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ انہیں ملک دشمن اور غدار تک قرار دینے سے گریز نہیں کی جا رہا ہے ۔ روزآنہ رات میں ٹی وی چینلس پر ہونے والے مباحث اور ان کا منفی رجحان بھی اس صورتحال کو آگے بڑھانے کی وجہ بن رہا ہے ۔ ٹی وی پر ہونے والے مباحث کو بھی اینکرس نے لعن طعن کا اڈہ بنالیا ہے ۔کسی مثبت مسئلہ اور پہلو پر ماحث کی بجائے ہمیشہ سے سماج میں تقسیم اور نفاق کی وجہ بننے والے مسائل کو ہی ہوا دی گئی ہے اور جو لوگ ملک و قوم کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ بات کرتے ہیں انہیں ان مباحث میں کوئی جگہ نہیں ملتی ۔ اگر اتفاق سے جگہ مل بھی جائے تو پھر اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ انہیں اوچھی ریمارکس اور تبصروں کا شکار کردیا جاتاہے ۔ ملک کی سیاسی پستی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایوان پارلیمنٹ اور اسمبلیوں اور ٹی وی چینلوں پر تک ایک دوسرے کے تعلق سے انتہائی نازیبا اور غیر پارلیمانی الفاظ اور جملے استعمال کے جانے لگے ہیں اور ایسا کرنے پر ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ منفی سوچ اور بیمار ذہنیت کے حامل افراد کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ محض اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے اخلاقیات اور اقدار کو پامال کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
ایک مثبت اور صحتمند سوچ رکھنے والے معاشرہ کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قائدین اپنے طور پر مثال پیش کریں۔ سماج میں منفی سوچ اور بیمار ذہنیت رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے تاہم ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس اور الٹ ہوگئی ہے ۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کو ایک مثبت اور اچھا پیام دیا جاسکے ۔ ملک کے عوام کو بھی اس معاملے میں اپنی سوچ کو پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں سماج میں نفرت اور منفی سوچ پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور ایسے عناصر کے خلاف کھل کر موقف اختیار کرنا چاہئے تاکہ ملک میں ایک بار پھر خیرسگالی والی سیاسی فضاء کو بحال کیا جاسکے ۔
ہندوستان کی سفارتی سرگرمیاں
امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اور بیجا شرحیں عائد کئے جانے کے بعد ہندوستان نے مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی سفارتی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ دیگر ممالک نے بھی ہندوستان سے تعلقات کو خوشگوار بنانے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے دو قدم آگے بڑھائے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان اور چین کے مابین بھی جوکشیدگی رہی تھی اس کو دور کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جئے شنکر نے چین کا دورہ کیا تھا ۔ چینی وزیر خارجہ بھی ہندوستان آئے تھے اور اب ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی بھی چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ہند ۔ چین تعلقات ماضی میں کافی مستحکم رہے تھے تاہم کچھ عرصہ سے ان میں سرد مہری اور کشیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔ تاہم بدلتے ہوئے منظرنامہ میں دونوں ہی ممالک ان تعلقات کو استوار کرنے اور دوبارہ خوشگوار اور گرمجوشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندوستان نے روس کے ساتھ تعلقات کو بھی مزید گہرے کرنے کی مساعی کا آغاز کردیا ہے ۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے روس کا دورہ کیا تھا ۔ روس نے بھی امریکہ کے مقالبہ میں کھل کر ہندوستان کی حمایت کی ہے ۔ ہندوستان کی سفارتی سرگرمیاں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اہمیت کی حامل ہیں اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سرگرمیوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے گا۔