ملک کا ماحول بگڑنے نہ پائے

   

اوج و اقدار پہ یوں فخر نہ کر
یہ نہ بن جائے تنزّل تیرا
پہلگام دہشت گردانہ حملے نے سارے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے ۔ عوام میں شدید بے چینی اور حملہ آوروں کے خلاف شدت کی برہمی پائی جاتی ہے ۔ عوام کا یہ رد عمل اور برہمی واجبی اور فطری عمل ہے ۔ نہتے اور بے بس سیاحوں کو اچانک فائرنگ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا جانا غیر انسانی عمل ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے ۔ جس طرح وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوںکو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے گا توضرور ایسا کیا جانا چاہئے ۔ دہشت گردی کسی بھی حال میں اور کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ ہر شکل میں دہشت گردی کی مذمت کی جانی چاہئے اور اس کے خاتمہ کیلئے ہر ایک کو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو بھی دہشت گردوں کو سبق سکھانے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھنی چاہئے اور جو کچھ ممکن ہوسکتا ہے وہ کیا جانا چاہئے تاکہ عوام کے جذبات کا احترام ہوسکے ۔ جہاں تک دہشت گردوں اور ان کی غیر انسانی کارروائیوں کا سوال ہے تو اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس کو آہنی پنجہ سے کچلا جانا چاہئے تاہم کچھ عناصر ہیں وہ اس انتہائی بہیمانہ اور مذموم حملے کے بعد ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں ہندو ۔ مسلم تفریق کو ہوا دینے کے منصوبوںپر عمل کیا جا رہا ہے ۔ ایک فرقہ کو دوسرے کے خلاف اکسانے کی سرگرمیاں شروع کردی گئی ہیں۔ جو حملہ ہوا ہے وہ سارے ملک پر حملہ ہے اور سارے ملک کے عوام اس پر برہمی رکھتے ہیں۔ ایسے میں سماج میں نفرت اور خلیج کو بڑھانے کی کوششیں بھی کچھ گوشوں کی جانب سے کی جا رہی ہیں اور ان عناصر کی بھی شدت کے ساتھ سرکوبی کی جانی چاہئے ۔ آج سارا ملک ایک آواز میں بات کر رہا ہے ۔ دہشت گردوںکو سخت ترین پیام دیا جا رہا ہے ۔ حکومت بھی سخت کارروائی کے اشارے دے رہے ہیں ۔ ایسے میں ملک کے عوام ایک آواز اور ایک ساتھ ہونے چاہئیں اور ہیں بھی ۔ تاہم کچھ عناصر اس ماحول کو بگاڑنے اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں کر رہے ہیں اور یہ کوششیں بھی قابل مذمت ہیں۔
ہندوستان ایک وسیع وعریض ملک ہے اور یہاں تقریبا دیڑھ سو کروڑ لوگ رہتے بستے ہیں۔ ان میںنظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے اور اختلاف رائے فطری عمل ہے تاہم جہاں تک پہلگام دہشت گردانہ حملے کا سوال ہے تو سارے ملک کے عوام ایک رائے ہیں اور اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ مہلوکین سے اظہار ہمدردی اور تعزیت کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے ہر شہری کو برہمی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ دہشت گردوںاور دہشت گردی دونوں کا ہمیشہ کیلئے جڑ سے خاتمہ کردیا جائے ۔ اس ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جائے ۔ خود کشمیر کے عوام نے جس طرح اس حملے پر ناراضگی اور برہمی جتائی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے ۔ جس طرح مذہبی بھید بھاؤ کا خیال کئے بغیر کشمیری عوام نے متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں تسلی اور دلاسہ دیا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے ۔ جس طرح سے سیاحوں کو بچانے کیلئے مسلم نوجوان نے اپنی جان قربان کردی ہے اس کی بھی سارے ملک میں ستائش ہو رہی ہے ۔ یہ پیام ساری دنیا کو دیا جا رہا ہے کہ ہر ہندوستانی اس مسئلہ پر متحد ہے اور چاہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ اس طرح کے بزدلانہ اور بہیمانہ حملوں کا دوبارہ اعادہ ہونے نہ پائے اور اس کے جو ذمہ دار عناصر ہیں انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جائے ۔ سارے ملک نے ایک آواز میں مہلوکین سے اظہار ہمدردی کیا ہے اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ سارے ملک میں اس سلسلہ میں مظاہرے کرتے ہوئے اظہار یگانگت کیا جا رہا ہے ۔
یہ انتہائی تکلیف دہ اور غم کا موقع ہے ۔ ہر ہندوستانی کشمیر کے مہلوکین کا اپنے سینے میں درد محسوس کر رہا ہے ۔ یہ ملک کے مفاد میں ظاہر کیا جانے والا قومی جذبہ ہے ۔ یہ ملک کے عوام کے تئیں ایک دوسرے سے اظہار ہمدردی ہے ۔ اس ماحول کو بگاڑنے کی کچھ گوشوں کی جانب سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ ملک کے عوام ان کوششوں کو قبول نہیں کر رہے ہیں اور ان کی مذمت بھی کی جا رہی ہے تاہم حکومت کو بھی اس طرح کے عناصر کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے ۔ مشکل کے اور تکلیف کے وقت میں فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے والوںکو بھی بے نقاب کرتے ہوئے انہیں بھی سخت سزائیں دلانے کی ضرورت ہے ۔