ملک کا موجودہ منظرنامہ اورلائحہ عمل

   

برسوں کی جدوجہدکے بعد ۱۹۴۷؁ء میں ہندوستان کوآزادی حاصل ہوئی ،ہندوستانی عوام آزادی سے قبل افسردہ،غمزدہ اورزخم خوردہ تھے،غلامی کی زنجیروں سے آزادی سے ایک نئے خوشگواردورکا آغازہوا،قومی زندگی کی قباء جوظالم انگریزحکمرانوں کے ظلم وجورسے تارتارہوچکی تھی پھرسے وہ پیاروالفت کے دھاگوں سے رفوہوسکی۔ملک کی تشکیل جدید میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں اورمختلف اقوام وملل کے درمیان اتحادویگانگت اوربھائی چارہ نے اہم رول ادا کیا۔ انگریزوںکی غلامی سے ملک کوآزادی ضرور حاصل ہوگئی تھی لیکن مذہبی،سیاسی،لسانی ،علاقائی اورمعاشی عصبیتوں کے جال سے ملک آزادنہیں ہوسکا تھا۔ملک کے عظیم دانشوروں نے اس خواب کوشرمندئہ تعبیربنانے کیلئے جمہوریت کی راہ تجویزکی ،اس کیلئے ایک ایسا دستورمدون کیا گیا جس میں تمام مذاہب اوراقوام وملل کے تحفظات کوبنیادی حیثیت دی گئی،ملک کے سربراہوں اورعوام سب کیلئے عدل وانصاف کا ایک ہی پیمانہ مقررکیا گیا۔حکمرانوں اوررعایا سب کیلئے اس کی پابندی کولازم کیا گیا لیکن کچھ فرقہ پرست طاقتوں نے ہمیشہ اس کی خلاف ورزی کی اورفرقہ پرستی کے رجحان کوبڑھاوادینے کی مسلسل کوششوں میں لگے رہے،ملک کے حکمرانوں کی اکثریت انصاف پسندتھی ،عدلیہ بھی پوری طرح آزادتھااس لئے فرقہ پرستوں کے شرپسندانہ عزائم کوزیادہ کامیابی نہیں مل سکی تھی پھربھی ملک کے مختلف حصوں میں گاہے گاہے فسادات پھوٹ پڑتے لیکن انسانی و اخلاقی اقدارکے وجوداورحکومت وقانون کے اداروں میں عدل وانصاف کی وجہ فسادات تھم جاتے،پھرسے امن و آمان کی فضاء بحال ہوجایا کرتی تھی،جوں جوں ملک آزادی کی تاریخ سے دورہوتا گیا اس پر فرقہ پرست عناصرکی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔تشویشناک بات یہ ہے کہ عوام سے زیادہ خواص یعنی رعایا کے منتخب عوامی نمائندوں میں اس وقت فرقہ پرست عناصرکا تناسب بڑھتا جارہاہے اوریہ خواص عوام میں فرقہ پرستی کا زہرگھول رہے ہیں،افسوس صدافسوس!سیکولرملک عدل و انصاف امن وشانتی،انسان دوستی،پیارومحبت،رواداری وبھائی چارہ ،امن وآمان کا گہوارہ بنارہنے کے بجائے نفرت وعداوت ،ظلم وجور، ناحق قتل وخون جیسے گھنائونے جرائم کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ملک کی شبیہ بگاڑنے میں بعض شرپسندسیاسی لیڈرس کا بڑاہاتھ ہے جن کے دام فریب میں آکرملک کی بعض رعایا ان کے متنفرانہ انسان دشمن منصوبوں کوعملی جامہ پہنارہی ہے ’’گھرواپسی، گائورکھشا، لوجہاد،ہجومی تشدد‘‘اسی منصوبہ بند شرپسندانہ سازش کا حصہ ہیں جوملک کے حسین چہرہ پرکالک پوت رہے ہیں۔ شرپسندغنڈہ عناصرکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہونی چاہئے تھیں اوران کوجیل کی سلاخوں میں بندرہنا چاہئے تھا لیکن افسوس حکومت کے سربراہوں کی جانبدارانہ چشم پوشی کی وجہ نہ صرف وہ آزادہیں بلکہ حکومت کے اہم سربراہوں کی جانب سے تمغہء افتخارپارہے ہیں،ایک اخباری اطلاع کے مطابق ہجومی تشددکے مرتکب انسان نمادرندوں کو ایک وزیرنے تہنیت پیش کی ہے، شرپسندعناصر پر شکنجہ کسنے کے بجائے حکومت کے ذمہ دارخودپیٹھ تھپکیںتوپھر گلہ(شکوہ)کس سے؟الغرض ہجومی تشددکا زہرپھیلتا جارہاہے ،بروقت اس کی روک تھام نہ کی جائے توملک کی سیکولرقدریں مجروح ہوں گی ،جیسے ایک انسان کا کوئی یا اسکے بعض اعضاء زخمی ہوں ،ان کی مرہم پٹی کرکے اس کی اصلاح کی فکرنہ کی جائے توقوی امکان اس بات کا ہے کہ عمل جراحت (سرجری)سے ان اعضاء کو جسم سے علیحدہ کرنا پڑے،ظاہرہے ایک عضوکامجروح ہونا یا جسم سے جداہوجاناانسان کا جینا دوبھرکردیتاہے ،یہی کچھ مثال ہندوستان کی ہے،ہندوستان بھی ایک جسد(جسم)کی حیثیت رکھتا ہے اس کے کچھ اعضاء جیسے مسلم اقلیتیں اوردلت طبقات متاثرہوں گے تو شدیدخطرہ اس بات کا ہے کہ سیکولرہندوستان بھی ایک معذورومجبور اورمفلوج انسان جیسا بن جائے گا ،مختلف رنگ ونسل اورمذاہب کے ماننے والوں کا یہ حسیں وخوشنما چمنستان مرجھاجائے گا،ملک کے حکمرانوں اوراس کے باشندوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی سیکولرحیثیت کی حفاظت میں اس کے سارے اعضاء وجوارح کی حفاظت ہے ،ملک کے جمہوری نظام کی بقاء اس کی ترقی وسلامتی کا رازاسی میں پنہاں ہے۔

اس ملک میں اس وقت مسلم اوردلت ہردوطبقات ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں،ملک کا موجودہ منظرنامہ ملک کے ہرباشندے کودعوت فکردے رہاہے کہ تمام اقلیتیں اوراکثریت کے وہ افراد جوملک کے سیکولرکردارکی حفاظت کوہرقیمت پر عزیزرکھتے ہیں وہ آگے آئیں۔اس وقت مسلمان ملک دشمن طاقتوں کے نشانہ پرہیں، صرف مسلم کمیونٹی دفاع کیلئے کھڑی ہوکافی نہیں ہے،ملک میں سیکولرذہن رکھنے والے جمہوریت پسند کئی ایک صحافی ،دانشور،ہندومذہبی رہنمااورسیاسی قائدین ہیں اور ہندوعوام کا ایک بہت بڑاطبقہ ہے۔ان سب کوایک جگہ جمع کرکے ملک کے آئین ودستورکی روشنی میں مستقل لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے اوراجتماعی طورپرایسے اقدامات بروئے کارلاناچاہئے جس سے ملک کی سلامتی کولاحق خطرات کا خاتمہ ہوسکے اور انسانوں کے درمیان مذہبی منافرت اوربھیدبھائوکی جودیواریں کھڑی کی جارہی ہیں ان کومنہدم کیا جاسکے،یہ جدوجہد وقتی نہیں بلکہ مستقل ہونی چاہئے تاآنکہ حکومت خودمظلوم عوام کیلئے سینہ سپرہوکرانصاف کویقینی بنائے اورشرپسندعناصرکوسخت سے سخت اورعبرتناک سزادے۔سنجیدہ ملی جلی ایسی کوششیں ہی حکومت پراثراندازہوسکتی ہیں اورنتائج کی امیدکی جاسکتی ہے۔ ظلم بہرحال ظلم ہے کسی پربھی کیا جائے،آج مسلم اقلیتیں ظلم کی زدمیں ہیں ان ظالموں کویہ نہیں بھولناچاہئے کہ قدرت کے ہاں دیرہے اندھیرنہیں،کہیں ایسا نہ ہوکل وہ خوداس کی زدمیں آجائیں، نفرت کے سوداگرخود نفرت کے زہرکا پیالہ پینے پرمجبورہوجائیں ،فطرت کا یہ بھی قانون ہے ’’جوبوئوگے وہ کاٹوگے ‘‘دن بدلنے دیرنہیں لگتی ،ارشادباری ہے :’’ہم ان دنوں(روزوشب) کولوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں(آل عمران:۱۴۰)

ان حالات میں مسلمانوں کے کرنے کے دوکام ہیں:ایک کام تووہ جو اسباب کے درجہ کا ہے جس کا سطوربالا میں ذکرکیا گیا ہے،اللہ سبحانہ اس دنیاکے نظام کو اسباب پررکھا ہے اس لئے دستورکے چوکھٹے میں رہتے ہوئے ان تمام اسباب کواختیارکرناچاہئے جووقت وحالات کی مناسبت سے ضروری ہیں۔ملکی وعوامی مصالح میں سنجیدہ افرادکے درمیان خواہ وہ کوئی ہوں بشرطیکہ انصاف پسنداورانسان دوست ہوں مشاورت کی بڑی اہمیت ہے،بعدمشاورت جوبات طے ہوجائے اس پرعمل کیا جانا چاہئے لیکن کلی طورپر اس پراعتماددرست نہیں بلکہ اللہ سبحانہ پرکامل اعتمادوبھروسہ رکھنا چاہئے۔ارشادباری ہے’’اورمعاملات واُمورمیں ان سے مشورہ کریں جب آپ (ﷺ)کا پختہ ارادہ ہوجائے تواللہ سبحانہ پربھروسہ کریں،بے شک اللہ سبحانہ توکل اوربھروسہ کرنے والوں کومحبوب رکھتا ہے‘‘(آل عمران:۱۵۹)دوسرا کام بہت اہم ہے بلکہ یہی وہ کام ہے جس کی بنیادپرمسلمانوں کوکامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔مظلومیت ومقہوریت کی زندگی نصرت باری تعالی کی وجہ غلبہ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔’’اللہ سبحانہ ضروراس کی مددفرماتاہے جواس کی مددکرتا ہے ‘‘(الحج:۴۰)’’اگرتم اللہ سبحانہ کی مدد کروگے تواللہ سبحانہ تمہاری مددونصرت فرمائے گا (محمد:۷) اللہ سبحانہ کسی کا محتاج نہیں سب اس کے محتاج ہیں، یہاں اللہ سبحانہ کی مددسے مراد اسکے دین کی مددہے،اسلام ومسلم دشمن طاقتوں پرغلبہ حاصل کرنے کا یہی وہ نسخہ کیمیاء ہے جس پرعمل کرکے حضرات صحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام دشمن طاقتوں پرغلبہ حاصل کیا ہے۔اسلام کواپنی اوراپنے اہل خانہ کی زندگی کے سارے شعبوں میں زندہ کیا جائے پھردوسروں کواسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جائے ،ان شاء اللہ العزیز پھرتواسلام دشمن طاقتیں ناکامی کا منہ دیکھیںگی اوران کے ناپاک منصوبے خاک میں مل جائیں گے ،ظلم وجورکی تندوتیزہوائیں اپنا رخ بدل لیں گی،نفرتوں کی خاردارجھاڑیاں جومسلم اقلیت کومجروح کرنے کیلئے ان کی راہوں میں بچھائی جارہی ہیں وہ خودان دشمنوں کوزخمی ولہولہان کرنے کا ذریعہ بنیں گی،اللہ سبحانہ کا وعدہ ہے’’اگراللہ سبحانہ تمہاری مددفرمائے توتم پرکوئی غلبہ حاصل نہیں کرسکتا‘‘لیکن اگرمسلمان اللہ سبحانہ سے کئے گئے عہدکی پاسداری نہ کریں توپھران کویادرکھناچاہئے کہ ’’وہ اگرتم کوچھوڑدے توکون ہے جواس کے بعدتمہاری مددکرے؟‘‘(آل عمران:۱۶۰)