ملک کس سمت جارہا ہے ؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہمارے ملک کے دستور کی جو تمہید ہے، اس نے ایک طرح سے سارے دستوری آئین کی نمائندگی کردی ہے۔ آئین کی تمہید میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ اپنے ملک بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیرمذہبی (سکیولر) عوامی جمہوریہ بنائیں اور تمام شہریوں کیلئے انصاف مساوات اور اخوت کو فروغ دیں۔ تمام شہریوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، اظہار خیال، عقیدہ، مذہب اور عبادات کی آزادی دیں، بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات دیں اور ان سب کے درمیان اخوت و بھائی چارگی کو فروغ یں جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد و سالمیت کا تیقن ہو۔ قارئین اپنے ملک کے دستور کی تمہید سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہمارا دستور یا آئین کس خوبصورتی سے بنایا گیا، آپ کو یقینا دستور ہند کی تمہید میں دیئے گئے تین الفاظ مقتدر، سکیولر اور جمہوریہ یاد ہوں گے اور یہ تین لفظ ایک جدید جمہوری ملک کی اہم ترین خوبیاں ہیں۔ ہندوستان نے 15 اگست1947ء کو آزادی حاصل کی تاکہ اس قسم کی جمہوریہ قائم کی جاسکے جس کی خوبیاں ہم نے سطور بالا میں بیان کی۔ کل ساری قوم ملک کی 75 ویں یوم آزادی کا جشن منائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری قوم آزادی کا 100 واں جشن اور آزادی کے بے شمار جشن منانے کیلئے باقی رہے گی۔ لیکن میں یہ سوال بہت ہی ڈر و خوف سے پوچھ رہا ہوں۔ آیا ہمارا جمہوری ملک 2047ء میں مقتدر، سکیولر اور جمہوری باقی رہے گا؟
اقتدار اعلیٰ کہاں ہے؟ صدیوں سے ہندوستان کے بیشتر حصے اس لحاظ سے مقتدر یا مقتدراعلیٰ اور خود مختار تھے کہ ان پر بیرونی بادشاہوں اور ملیکاؤں کی حکمرانی نہیں تھی۔ ریاست مقتدر تھی لیکن لوگ مقتدر نہیں تھے۔ کئی حکمراں غاصب اور نااہل تھے چنانچہ ان حکمرانوں نے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے بہت کم اقدامات کئے کیونکہ وہ اپنی زندگیوں میں مست تھے، لیکن ایک جمہوری ملک کے دستور کے تحت نہ صرف ریاست مقتدر و خودمختار ہوتی ہے بلکہ عوام بھی مقتدر و بااختیار ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت میں حکمرانوں کو تبدیل کرنے سے متعلق عوام کی جو طاقت و اختیار ہے، وہ دراصل مقتدر عوام کا ایک نشان ایک علامت ہے۔ اسی طرح ملک میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات عوام کا حق ِ مقتدر ہے، لیکن حالیہ برسوں میں انتخابات اور ان کے نتائج بھی شکوک و شبہات کے دائرہ میں آچکے ہیں۔ آج کل انتخآبات میں ایسا لگتا ہے کہ پیسے کا حد سے زیادہ استعمال ہونے لگا ہے اور یہ بی جے پی ہی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے۔ وہ ملک کی دولت مند ترین سیاسی جماعت ہے۔ درحقیقت بی جے پی نے بڑی ہشیاری اور مکاری سے انتخابی بانڈس متعارف کروائی تاکہ سیاسی جماعتوں کو رقمی شکل میں دیئے جانے والے عطیات میں سے تقریباً 95% رقم حاصل کرسکے۔ انتخابات جیتنے کیلئے بی جے پی کے پاس دوسرے آلات بھی ہیں۔ میڈیا پر اس نے مکمل قابو پایا ہوا ہے۔ سرکاری اداروں کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اپنے مطلب اور مفاد کے مطابق قوانین متعارف و منظور کروانے کا سلسلہ بی جے پی نے جاری رکھا ہے۔ ایجنسیوں کو غیرقانونی طور پر کام کرنے پر آمادہ کرلیا ہے اور ان کا بیجا استعمال کررہی ہے اور اگر بی جے پی کسی ریاست میں انتخابات ہار جاتی ہے تو پھر اس کے پاس آپریشن لوٹس نامی ایک متبادل ہتھیار ہے جس پر بڑی بے شرمی کے ساتھ گوا، منی پور، اروناچل پردیش، میگھالیہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش میں عمل آوری کی گئی، راجستھان میں بھی آپریشن لوٹس کے ذریعہ کانگریس حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے نکتہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں آزادانہ و منصفانہ انتخابات نہیں ہوں گے؟ مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہے لیکن بحیثیت مجموعی اس خطرہ کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
کانگریس سے پاک بھارت وہ گولی نہیں ہے جس کا نشانہ صرف کانگریس ہے۔ صدر بی جے پی جے پی نڈا نے حال ہی میں یہ بیان دیا ہے کہ تمام چھوٹی پارٹیاں منظر عام سے غائب ہوجائیں گی، صرف بی جے پی ہی ایک قومی پارٹی کی حیثیت سے باقی رہے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایسا آئیڈیا ہے جس کی بی جے پی کی نرسری میں تخلیق کی گئی جس کے تحت بی جے پی تمام علاقائی جماعتوں کو ہضم کرنے کی خواہاں ہے۔ اس کے مذکورہ آئیڈیا سے لوگ فوری طور پر اپنے اختیارات سے محروم نہیں ہوں گے بلکہ وہ Slow Poison کی طرح پھیلے گا اور جس کا اثر لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے ہوئے دکھایا جائے گا اور یہ سب کچھ آہستہ آہستہ اور بتدریج کیا جائے گا۔ شخصی آزادی، آزادی ٔاظہار خیال اور تحریر کی آزادی سے لوگوں کو محروم کیا جائے گا۔ لوگوں سے حق ناراضگی، حق احتجاج، حق خلوت (پرائیویسی)، حق سفر اور بالآخرخوف سے آزادی بھی چھین لی جائے گی۔ آپ خود سے سوال کیجئے کہ ہندوستان کس سمت جارہا ہے۔
سکیولرازم کہاں ہے ؟
آئندہ چند برسوں میں ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور اس کی آبادی 160 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ ایک بات یقینی ہے کہ آبادی میں اضافہ کے باوجود آبادی کے مذہبی تناسب میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ آبادی کا موجودہ تناسب دیکھا جائے تو اس میں ہندوؤں کی آبادی 78.4% مسلمانوں کی آبادی 14.4%، عیسائیوں کی آبادی 2.2%، سکھوں کی آبادی 1.7% اور دیگر کی آبادی 3.3% ہے۔ 2000 برسوں تک ہندوستان ایک ہمہ مذہبی و ہمہ تہذیبی ملک رہا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہم اس خوبی سے محروم ہورہے ہیں۔ اس کے متضاد امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ فخریہ طور پر ایک مشترکہ معاشرہ ہونے کے بڑے فوائد کے اعلانات کررہے ہیں۔ ان ملکوں کے ادارے بشمول عدالتیں، میڈیا اور جامعات بڑی سرگرمی کے ساتھ تنوع کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ سپریم کورٹ میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں سے صرف ایک ایک عزت مآب جج ہیں ، کوئی سکھ جج نہیں۔ اس بات کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ اس وقت تک ایک اور مسلم یا عیسائی جج کا تقرر نہیں کیا جائے گا جب تک موجودہ جج سبکدوش نہیں ہوتے۔ اس بارے میں اپنے آپ سے ضرور سوال کیجئے۔ہماری موسیقی، ادب، سنیما، کھیل کود، سائنس، طب، قانون، تدریس اور سیول سرویس میں سے اگر مسلمانوں اور عیسائیوں کو خارج کردیا جائے تو ایک بڑا خلا پیدا ہوگا۔ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران ہیں جنہوں نے سکیولرازم کو بدنام کیا اور اسے خوشامدی سے تعبیر کیا۔ یاد رکھئے! سکیولرازم کی موت اور ہندو راشٹر کا اعلان انڈیا کے آئیڈیا کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے اور یہ خود جمہوریت کی موت کے منافی ہوگی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستانیوں کی اکثریت یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں جمہوریت اور سکیولرازم کی موت ہو لیکن بی جے پی کے حامیوں کی اکثریت ایسا لگتا ہے کہ ایک ہندوراشٹر کی خواہاں ہیں۔ ان دونوں میں سے میں نہیں جانتا کہ کس کی جیت ہوگی۔