ملک کی آزادی تب اور اب پنڈت نہرو سے مودی تک

   

ہریش کھارے
ہمارے ملک کا 75 واں یوم آزادی زبردست جوش و خروش اور تزک و احتشام سے منایا گیا ۔ مودی حکومت نے اسے آزادی کے امرت مہااتسو کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ 75 سال قبل یعنی 15 اگست 1947ء کو بھی ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے لال قلعہ کی فصیل پر قومی پرچم لہرایا تھا۔ پرچم کشائی کے موقع پر انہوں نے جو کہا تھا جو وعدے کئے جن عزائم کا اظہار کیا تھا، اسے پورا بھی کردکھایا۔ 75 سال قبل جس شخصیت نے پرچم کشائی انجام دی۔ اس شخصیت کی اپنی ایک سیاسی انفرادیت و پہچان تھی۔ اخلاقی اقدار کو وہ سب سے زیادہ اہم رہا کرتی تھی۔ اس شخص نے ملک کی آزادی کی تحریک میں حصہ لے کر تقریباً ایک دہے تک اپنے ساتھی مجاہدین کے ساتھ انگریزوں کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اس شخصیت (پنڈت جواہر لال نہرو) کا 20 ویں صدی کے عظیم لیڈروں میں شمار ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین آزادی نے 20 ویں صدی کے اخلاقی اقدار کے ایک عظیم رہنما کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ اپنے اصول عدم تشدد کے ذریعہ انگریزوں کو واپس جانے پر مجبور کیا۔ 75 سال قبل اور 75 سال بعد جس شخصیت نے تاریخی لال قلعہ کی فصیل پر قومی ترنگا لہرایا دونوں کی شخصیتوں دونوں کے اصول و اقدار دونوں کی کارکردگی دونوں کے انداز فکر دونوں کی ترجیحات و مقاصد میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ 75 سال قبل لال قلعہ کی فصیل پر جھنڈا لہرانے والے پنڈت جواہر لال نہرو کی شخصیت سازی میں وسیع النظری وسیع القلبی انسانیت نوازی، عدم تشدد امن و اُخوت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی اور اب جس وزیراعظم نے آزادی کی 75 ویں سالگرہ تقریب کی صدارت کی۔ وہ ایک ایسا شخص ہے جس کی شخصیت سازی ناگپور میں سنگھ پریوار جن سنگھ ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور پریوار کی چھوٹی بڑی سطحوں و جماعتوں کی جانب سے فروغ دی گئی تنگ نظری کے ذریعہ کی گئی ہے۔ خود مرکوزیت کے ذریعہ ان کی شخصیت سازی کی گئی ہے۔ اگر کوئی وزیراعظم نریندر مودی سے یہ توقع کررہا تھا کہ وہ ہمارے 75 سالہ قومی سفر پر بڑے ہی دیانت دارانہ انداز میں روشنی ڈالیں گے تب انہیں چند منٹوں میں جھٹکہ لگ گیا جب انہوں نے سنگھ پریوار کے اہم نظریہ سازوں اور بانیوں میں سے ایک ساورکر کو ان شخصیتوں کی فہرست میں شامل کردیا اور پنڈت جواہر لال نہرو کو نکال باہر کیا جن کی بصیرت یا ویژن نے ہندوستان کو آزادی اور ترقی کی جانب گامزن کیا (حالانکہ تحریک آزادی میں آر ایس ایس اور ساورکر کے کردار کو سب جانتے ہیں۔ گاندھی جی کے قتل اور اس کے بعد چلائے گئے مقدمہ میں ساورکر کے بارے میں گوڈسے کی کیا رائے تھی، وہ بھی سب کو معلوم ہے) شخصی تنگ نظری و جانبداری کے ساتھ ساتھ نظریاتی تعصب انسان کی شخصیت کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتی ہے۔ کئی دہوں تک سنگھ پریوار کے ایک پابند ڈسپلین سپاہی کے طور پر انہوں نے خود کو وقف کردیا۔ ایسے میں فطری امر ہے کہ وہ گزشتہ 75 سال کی قومی کہانی کو ازسرنو تحریر کرنا چاہا اور یہ شمولیاتی اور غیرشمولیاتی عمل کا ایک پہلو ہے۔
جہاں تک 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل پر پرچم کشائی انجام دینے کا سوال ہے۔ یہ وزیراعظم کا اختیار ہوتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے جس لب و لہجہ اور جس انداز میں خطاب کیا، اس کے ذریعہ بڑے پیمانے پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وزیراعظم دنیا کے قدآور رہنما ہیں۔ ان کی تقریر سے یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ انہیں ہندی پر عبور حاصل ہے اور وہ بولتے ہیں، خوب بولتے ہیں، وہ ایک اچھے مقرر ہیں۔ انہوں نے زبردست تقریر کی لیکن ان کی تقریر میں ماضی کے وزرائے اعظم کی تقاریر کی طرح کسی حساب کتاب، عوامی مسائل کے حل سے متعلق تیقنات نہیں تھے۔ آج ہندوستان میں نوجوان بیروزگاری سے پریشان ہیں۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ اور مایوسی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ کشمیر اور کشمیری عوام بھی شکایت کررہے ہیں۔ چین ہماری سرحدوں سے متصل پل تعمیر کررہا ہے۔ آبادیاں بسا رہا ہے۔ مرکز اور ریاستوں کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یعنی مرکز اور ریاستوں کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں اور حکومت ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کررہی ہے۔بہرحال خود کو ایک عظیم لیڈر تصور کرنے والی شخصیت اپنے سننے والوں کو حقیقت سے جڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس کیلئے ایک بہت آسان طریقہ یہ اپنایا گیا ہے کہ شہریوں کو حقیقی مسائل سے دور رکھا جائے اور غیرضروری مسائل میں انہیں الجھایا جائے، دوسری طرف جس شخصیت کو ایک عالمی لیڈر کے طور پر پیش کرنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ حکمرانوں کی غلطیوں، ان کے غلط اقدامات کے خلاف قوم بات کرسکتی ہے۔ اس شخصیت نے شہریوں سے ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے عہد کرنے کی بھی اپیل کی جو یقینا حیرت انگیز ہے۔ ان کی تمام باتیں سننے میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن عملی طور پر عجیب دکھائی دیتی ہیں یعنی جو کہا جارہا ہے، اسے عملی شکل نہیں دی جارہی ہے۔