ملک کی ابتر معاشی حالت

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) اس وقت مایوس ہوگئی تھی جب سال 2022-23ء کے پہلے سہ ماہی کی شرح نمو اس کی پیش قیاسی سے بہت کم رہی۔ آر بی آئی نے پیش قیاسی کی تھی کہ یہ شرح نمو 16.2% ہوگی لیکن جو شرح نمو ریکارڈ کی گئی، وہ 13.5% ہی رہی۔ آر بی آئی نے مابقی تین سہ ماہی کیلئے شرح نمو کا جو تخمینہ کیا وہ 6.3، 4.6 اور 4.6 فیصد ہے۔ شرح نمو کا اوسط تخمینہ 7% متاثرکن لگتا ہے، لیکن سچائی یا حقیقت اوسط میں پوشیدہ نہیں ہوتی بلکہ خط رجحان یا Trend Line میں ہوتی ہے۔ اس میں بطور خاص یہ نوٹ کیا جاتا ہے کہ سہ ماہی کے بعد سرمایہ میں شرح نمو میں گراوٹ آئے گی۔ UNICTAD نے سال 2022ء کیلئے 5.7% اور سال 2023ء کیلئے 4.7% جیسی مایوس کن شرح نمو کی پیش قیاسی کی ہے۔ سال 2016ء میں جب سے نوٹ بندی نافذ کی گئی، اس کے کئی متوازی حالات بھی ہیں۔ سال 2016-17ء، سال 2017-18، سال 2018-19، سال 2019-20ء اور سال 2020-21ء، سالانہ شرح نمو بالترتیب 8.26، 6.80 ، 6.53، 7.25 فیصد تھے۔ اسی طرح سال 2017-18ء کے چوتھے سہ ماہی سے نمو کی سہ ماہی شرحیں 8.93، 7.66، 6.49، 6.33، 5.84 (2018-19ء) اور 5.39 ، 4.61، 3.28، 3.28، 3.01 (2019-20ء) فیصد رہے۔ آپ اس کا گہرائی سے جائزہ لیں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ چار مالی برسوں اور آٹھ سہ ماہیوں میں گراوٹ کا رجحان پایا جاتا ہے۔
آر بی آئی ٹیٹوریل
جہاں تک مضبوط و مستحکم معاشی پالیسی کا سوال ہے، ہمیشہ اس کے کچھ سیاق و سبق ہوتے ہیں جبکہ ایک فراخدلانہ مارکٹ اکنامی میں اقتصادی پالیسی کے چند عناصر منتقل ہوں گے جبکہ دوسرے عناصر کو حالات کے مطابق تیار کرنا یا قطعیت دینا ضروری ہوتا ہے۔ آر بی آئی کے گورنر مسٹر شکتی کانتا داس نے اس کی کچھ یوں وضاحت کی ہے: ’’گزشتہ دو برسوں میں دنیا نے دو بڑے اقتصادی جھٹکوں یا صدموں کا مشاہدہ کیا۔ ایک تو کووڈ۔ 19 کی وباء اور دوسری یوکرین جنگ ہے، اور اب ہم تیسرے بڑے جھٹکے کے بیچ میں ہیں۔ ایک طوفان جارحانہ معاشی پالیسی اقدامات اور اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینکوں سے جارحانہ روابط سے اُٹھ رہا ہے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور امریکی ڈالر ایک محفوظ کرنسی ہے اور احتیاط اس میں ہے کہ لیڈر کو فالو کیا جائے اور ایک بات امریکی وفاق امریکہ کی مہنگائی تک شرح سود میں ہورہے اضافہ کو نہیں روکے گا۔ فی الوقت امریکی افراط زر کی شرح 8.3 فیصد ہے جن پر قابو پالیا گیا ہے۔
مشکل ترین چیلنج
مذکورہ جائزہ تمام ملکوں کیلئے بالکل صحیح ہے۔ صرف ہندوستان میں ہی نیم حکیم خطرہ جاں کو چیلنجس کے خلاف موثر پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر تھوڑا سا علم ہونے کے باوجود بڑی بڑی باتیں اور دعوے کئے جاتے ہیں اور اس طرح کے موقف کو ہی چیلنج کا موثر جواب یا پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ اس مضمون میں راقم چند ایسے حقائق پیش کرنا چاہتا ہے جس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آیا حکومت کی کارکردگی کامیاب ہے یا ناکام۔
مہنگائی
جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے، آر بی آئی کے اصول و قواعد کے مطابق اسے 8 مثبت یا منفی 2 فیصد پر رکھنا ضروری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے دو برسوں (24 ماہ کے دوران) ریٹیل پرائس افراط زر 6% کی حد سے زیادہ رہا جبکہ ہول سیل پرائس افراط یا مہنگائی تقریباً 12 ماہ تک دو ہندسی رہی جبکہ مہنگائی کی موجودہ شرح کچھ اس طرح ہے۔ سی پی آئی 7%، ڈبلیو پی ٹی آئی 12.37%، مابعد مالیاتی پالیسی پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر آر بی آئی مسٹر داس نے کھلے عام اس بات کا اعتراف کیا کہ ہم اس امر کی توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ دو برسوں کے دورانیہ میں مہنگائی ہمارے مقررہ ہدف کے قریب آئے گی، لیکن غیریقینی کے حالات بھی پائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ وزارت فینانس اور آر بی آئی کے درمیان مالیاتی پالیسی کے موثر ہونے پر پائے جانے والے اختلافات ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ
آر بی آئی کے اعداد و شمار جدول کے مطابق پہلے سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (CAD) 23.9% ارب ڈالرس یا تخمینہ قومی مجموعی پیداوار کا 2.8% رہا جو سامان کے کاروبار یا تجارت میں خسارہ کے باعث ہوا۔ ابتدائی تفصیلات (ڈاٹا) اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ سامان کی تجارت کا خسارہ اپریل ستمبر 2022ء کی مدت میں (ذریعہ) وزارت کامرس و انڈسٹریز) بڑھ کر 149.5 ارب ڈالرس ہوگیا۔ جہاں تک سونے کی درآمدات کا سوال ہے، یہ 20 ارب ڈالرس کے رہے جبکہ POL اکاؤنٹ پر خسارہ 65.1 ارب ڈالرس درج کیا گیا حالانکہ پہلے سہ ماہی میں جولائی اگست کے دوران اشیاء کی درآمدات کی شروعات شاندار رہی اور ستمبر میں یہ رجحان زوال پذیر رہا یعنی 36.27، 33.00 اور 32.62 ارب ڈالرس رہا ۔ اس شرح پر تمام سال کیلئے CAD میں 3% اضافہ ہوگا اور شاید 3.4% کے قریب ہوگا۔
روپیہ اور ڈالر کی شرح تبادلہ
مالی سال کے آغاز پر روپئے اور ڈالر کی شرح 75.91 رہی لیکن آج یہ شرح 81.94 پر پہنچ گئی۔ یکم اپریل 2022ء کو بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 606 ارب ڈالرس تھے اور 30 ستمبر تک بیرونی زرمبادلہ کے جملہ ذخائر گرکر 537 ارب ڈالرس ہوگئے۔ آر بی آئی نے ایکسچینج ریٹ مارکٹ میں استحکام کو یقینی بنانے 69 ارب ڈالرس استعمال کئے۔ اس کے باوجود پچھلے 6 ماہ میں روپئے کی قدر میں 8% کی کمی آئی۔ آج ملک کو معاشی شعبہ میں جس صورتحال کا سامنا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہ ملتی ہو۔ 2012-13ء، 2013-14 (جب یو پی اے اقتدار سے محروم ہوئی) میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔