دشینت دوے کیوں رونے لگے ؟
کرن تھاپر
آج کل ملک میں مساجد کو مندر قرار دینے اور ہر مسئلہ کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کا خطرناک رحجان بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے یا اسے بڑھایا جارہا ہے ۔ اس سلسلہ میں ملک کے سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوے نے کرن تھاپر ( دی وائر ) کو دیئے گئے انٹرویو میں فرقہ پرستوں اور ملک کے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کو شرم دلانے کی کوشش کی یہاں تک کہ ملک کے موجودہ حالات پر انٹرویو کے دوران وہ رو پڑے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں اب بھی ان محب وطن ہندوستانیوں کی کمی نہیں جو انگریزوں کے دور سے مقابلہ کررہے ہیں جو ملک سے غداری کے ریکارڈ قائم کرنے والوں کی اُس نسل آج بھی اپنے آباواجداد کے نقش قدم پر چل کر ملک کی گنگاجمنی تہذیب اخوت و بھائی چارگی اور جمہوریت و سیکولرازم کو تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ چونکہ کرن تھاپر کے اس انٹرویو کے کافی چرچے ہیں ایسے میں ہم اپنے قارئین کیلئے اس انٹرویو کے اقتباسات پیش کررہے ہیں ۔ سب سے اہم بات جو مسٹر دشینت دوے نے کہی وہ یہ ہیکہ مساجد کے سروے کی اجازت دے کر سابق چیف جسٹس آف انڈیا وائی چندرا چوڑ نے ہندوستان کے دستور اور ہندوستان سے بڑی انصافی کی ہے اس کی بدخدمتی کی ہے۔ جب دشینت دوے سے یہ سوال کیا گیا کہ آج سارے ملک میں مسلسل اس بات کا احساس پایا جارہا ہے کہ صدیوں قدیم مساجد کے منادر ہونے کے دعوے کرتے ہوئے آرکیاجیکل سروے آف انڈیا ( محکمہ آثار قدیمہ ) سے سروے کروانے کی تحت کی عدالتوں سے اجازت مانگی جارہی ہے ۔ حالیہ عرصہ کے دوران اترپردیش کے تاریخی شہر سنبھل اور راجستھان کے اجمیر میں ایسا ہوا ہے جبکہ اس سے قبل اترپردیش کے وارانسی ، متھرا اور مدھیہ پردیش کے دھار میں ایسا ہوا ہے ۔ ان حالات میں کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس چندرا چوڑ نے مئی 2022 میں جو فیصلہ دیا وہ موجودہ سنگین حالات و صورتحال کیلئے ذمہ دار ہے اگر مسٹر چندرا چوڑ اس کیلئے ذمہ دار ہیں تو کیا آپ وضاحت کرسکتے ہیں کہ آپ انہیں قصوروار کیوں سمجھتے ہیں ؟ اس تفصیلی سوال کے جواب میں دشینت دوے کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ ملک کے طول و ارض میں صورتحال دن بہ دن سنگین ہوتی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہیکہ Places of Worship Act 1991 ( عبادت گاہوں کے قانون 1991 ) میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگسٹ 1947 میں عبادت گاہوں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ ہو ان کا موقف جوں کا توں رہے گا ان کے موقف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی ۔ سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے جس میں جسٹس چندرا چوڑ بابری مسجد رام ۔جنم بھومی کیس میں شامل تھے واضح طور پر کہا تھاکہ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے دو پیمانہ ہیں ایک یہ کہ 15 اگسٹ 1947 کو موجود ہر مذہبی مقام کا تحفظ کرنا دوسرا انہوں نے دفعہ 4 ذیلی دفعہ 2 کی تشریح کی کہ کسی بھی مذہبی مقام کے کردار کو بدلنے کیلئے کوئی نیا مقدمہ ، اپیل یا کارروائی نہیں ہوسکتی اور ہاں ایک ایکٹ کی دفعہ 5 کے ذریعہ رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد کو مستثنی قرار دیا تھا کیونکہ یہ مقدمہ اور تنازعہ 1947 سے پہلے ہی زیرالتواء تھا ۔ سپریم کورٹ نے پر زور انداز میں کہا تھا کہ یہ ایکٹ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے مطابق یہ قانون سیکولرازم قائم کرنے کیلئے ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ تاریخی غلطیوں کو لوگوں کے ذریعہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر درست نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تمام سپریم کورٹ کے دستوری بنچ کے الفاظ ہیں جس میں ڈی وائی چندرا چوڑ بھی شامل تھے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شرما جنہوں نے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی کا فیصلہ دیا تھا اپنے فیصلہ میں تبصرہ کیا تھا کہ یہ قانون دوسری عبادت گاہوں کے سلسلہ میں نئی کارروائی یا نئے مقدمہ کو نہیں روکتا لیکن دستوری بنچ نے اُس نتیجہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر غلط ناقص اور دفعہ 4 ذیلی دفعہ 2 کے مغائر اور خلاف ہے جس میں صاف طور پرکہا گیا ہے کہ مستقبل میں کسی نئی عبادت گاہ کیلئے کوئی مقدمہ یا کارروائی نہیں ہوسکتی ۔ ایسے میں اب اگر آرٹیکل 141 کی بنیاد پر یہ ملک کا قانون ہے تو اس دفعہ کے باعث ہر کوئی عاملہ ، مقننہ یہاں تک کہ عدلیہ بشمول سپریم کورٹ اس قانون کا پابند ہے اس لئے مجھے یہ انتہائی چونکا دینے والا لگتا ہے کہ جب گیان واپی مسجد کا معاملہ منظر عام پر آیا اور جب مسلمانوں کی طرف سے دائر مقدمہ کو خارج کرنے کی التجا کی گئی جسے تحت کی عدالت اور ہائیکورٹ نے خارج کردیا لیکن جسٹس چندرا چوڑ نے کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی یعنی محکمہ آثار قدیمہ کی کارروائی ( سروے ) جاری رکھنے کی اجازت دی اس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ ان کی جانب سے اے ایس آئی کی کارروائی ( سروے ) جاری رکھنے کی اجازت دینا دراصل خود جسٹس چندرا چوڑ کے اپنے ہی فیصلہ کی چونکا دینے والی خلاف ورزی تھی جس مسجدوں کے نیچے منادر ہونے اور مساجد کے منادر ہونے سے متعلق دعووں کا پٹارہ کھل گیا ۔ اگر جسٹس چندرا چوڑ اس دن یہ کہتے کہ کچھ نہیں ہوگا کوئی اور کارروائی ( سروے ) نہیں ہوسکتی کوئی اور کارروائی قبول نہیں کی جائے گی اور ہم حکم دیتے ہیں کہ ملک کی کوئی عدالت ایسی کارروائی قبول نہیں کرے گی تو وہ ہمارے اس عظیم ملک کا بھلا کرتے لیکن افسوس کہ وہ ایسا کہنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ وہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے ( لیکن کونسے سیاستداں کے ہاتھ میں یہ نہیں کہہ سکتا ) اور مجھے تو یہ بات بہت زیادہ حیران کرتی ہیکہ مسٹر چندرا چوڑ ساری دنیا میں ہندوستانی سیکولرازم جمہوریت کے دعوی کرتے ہیں سیکولرازم اور ملک میں قانون کی حکمرانی اس کی بالادستی پر لکچرس دیتے ہیں لیکن اب وہی چندرا چوڑ ملک میں قانون کی حکمرانی کے زوال اور گراؤٹ کا باعث بن گئے ۔ کرن تھاپر نے دشینت دوے سے ایک اور سوال میں یوں کہا ’’ چندرا چوڑ کے الفاظ تھے کہ مذہبی کردار کا تعین کرنا ممنوع نہیں ہے ۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ جو چیز ممنوع ہے وہ 15 اگسٹ 1947 کے بعد عبادت گاہ کا کردار بدلنا ہے لیکن ( مقام ) کے مذہبی کردار کا تعین کرنا غلط نہیں ہے ۔ اس بارے میں بتایئے ؟ دشینت دوے کے مطابق دانشور ہونے کا دعوی کرنے والے شخص کو ایسی وضاحت کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا کیونکہ اگر آپ کسی جگہ کا کردار نہیں بدل سکتے تو کردار کے تعین کا کیا مطلب ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں دشینت دوے نے کہا کہ کیا سنبھل میں چار افراد کی موت کیلئے عدلیہ ذمہ دار نہیں ہے ؟ ہم یہاں مندر مسجدکی بحث کررہے ہیں ۔ لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو مستقل طو رپر تقسیم کیا جارہا ہے اور یہ ایسی ریاستوں میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی کا اقتدار ہے ایسے میں میرا ماننا ہیکہ چندرا چوڑ نے دستور اور اس ملک کے ساتھ بڑی ناانصافی کی ہے ۔ چندرا چوڑ یقیناً اپنے ہی فیصلہ کی خلاف ورزی اور اپنے ہی فیصلہ کی توہین کے مجرم ہیں ۔ ایک اور سوال پر دشینت دوے نے جواب دیا کہ جسٹس چندرا چوڑ نے ایک دیانتی پر مبنی تشریح کی ۔ اگر دیکھا جائے تو صرف جسٹس چندرا چوڑ ہی آئین اور قانون کی پاسداری سے متعلق اپنے اُٹھائے گئے حلف کے خلاف ورزی کا مرتکب ہوئے بلکہ ان کے وہ ساتھی بھی جو ہنوز سپریم کورٹ میں براجمان ہیں چندرا چوڑ کے ہی طرح ذمہ دار ہیں وہ چیف جسٹس سے کہہ سکتے تھے کہ ہم آپ سے متفق نہیں ہیں اور ہم اس کا حصہ بننا نہیں چاہتے ۔ ہاں جہاں جسٹس چندرا چوڑ جیسے لوگ ہیں وہیں جسٹس کول جیسے ججس بھی ہیں جنہیں ہم سلام کرتے ہیں جنہوں نے کارروائی ( سروے ) پر روک لگادی اب جسٹس چندرا چوڑ اور ان کے ساتھیوں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے جو گیان واپی مسجد کے فیصلے کا حصہ تھے ۔ دشینت دوے یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے اور اقلیتی برادری کو دبانے اور جبر کرنے کیلئے حالات پیداکئے گئے اور کئے جارہے ہیں ۔ ایک اور سوال پر غیرمعمولی دیانتدارانہ جواب دیتے ہوئے دشینت دوے نے کہا کہ چندرا چوڑ نے وزیراعظم سے دوستی کا ثبوت بھی دیا اور یہ دوستی دوبارہ اس وقت ثابت کی جب انہوں نے کہا کہ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلے میں انہیں بھگوان سے رہنمائی ملی ۔ آپ خود سوچئے کہ ملک کا چیف جسٹس ایسا کیسے کرسکتا ہے ؟ آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے مجھے لگتا ہے کہ حکمراں بی جے پی وزیراعظم نریندر مودی کو سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں لو جہاد ، لینڈ جہاد ، ہجومی تشدد یہ سب تباہی کے سامان ریاست کی تائید و حمایت سے ہورہے ہیں اور خاص طور پر بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں ایسا ہورہا ہے یہ لوگ ملک میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ آج آپ خوف و دہشت پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں معمار دستور بابا صاحب امبیڈکر کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئے جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں بحث کے دوران ادا کئے تھے کہ اقلیتیں ایک دھماکہ خیز قوت ہیں اگر وہ پھٹتی ہیں تو یہ اس ملک کے تانے بانے کو تباہ کردے گی اور کوئی بھی محب وطن ہندوستانی ایسی صورتحال نہیں چاہئے گا ۔ آج جو لوگ اس ملک کی اسلامی تاریخ کو مٹانے کے در پر ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لال قلعہ سے شروعات کیوں نہیں کرتے ۔ آپ تاج محل ، قطب مینار کیوں نہیں جاتے ان کے نیچے کھدائی شروع کریں اور ان ہزاروں عظیم یادگاروں کو گرادیں جو اس ملک کا عظیم ورثہ ہیں ۔ دشینت دوے یہ بھی کہتے ہیں ’’ میں آپ کو یہ بات بتاسکتا ہوں اس کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے نیند نہیں آتی ۔ میری اہلیہ ہر دن مجھ سے کہتی ہے کہ آپ اس حد تک کیوں سوچ رہے ہیں تاہم مجھے اپنے عظیم ملک کی فکر ہے میں اپنے لوگوں کیلئے فکر مند ہوں ۔ آپ نہیں جانتے کہ موجودہ فرقہ وارانہ ماحول کا مجھ پر کتنا اثر مرتب ہورہا ہے ایسے میں ذرا غور کیجئے اقلیتوں کو یہ کتنا متاثر کررہا ہے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یقیناً افسوسناک ہے ۔ آج ملک میں مسلمانوں کو ہم اپنے پن کا احساس دلائیں یہ کہتے ہوئے دشینت دوبے رو پڑے۔