ہندوستان کو دنیا کی سب سے تیز رفتار سے ترقی کرنے والی معیشت قرار دیا جا رہا ہے ۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی اہمیت اور اس کے رول میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ عالمی سطح پر ہندوستان کے موقف کو تسلیم کیا جانے لگا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کئی شعبہ جات میں ہندوستان نے گذشتہ تین دہوں میں بہترین ترقی کی ہے اور اس کے نتیجہ میں ملک کی عالمی سطح پر اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ہندوستان میں راست بیرونی سرمایہ کاری بھی بڑھنے لگی ہے اور اس کے نتیجہ میں ملک کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ رہے ہیں۔ ہندوستان کی درآمدات و برآمدات میںاضافہ کا بھی اس پر اثر ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اندرون ملک معاشی صورتحال مستحکم دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ خاص طور پر اسٹاک مارکٹ میں جو تیزی سے اچھال اور پھر اسی تیزی سے گراوٹ درج کی جا رہی ہے اس کے نتیجہ میں ملک کے سرمایہ کاروں کا لاکھوں کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا ہے ۔ کچھ مٹھی بھر کمپنیاںیا ادارے ایسے ہیں جو بے دریغ منافع کما رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں عام سرمایہ کار کا بھاری نقصان ہو رہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ اسٹاک مارکٹ اور سکیورٹیز و ایکسچینج بورڈ آف انڈیا میں بھی چند کمپنیوں کی اجارہ داری چل رہی ہے اور ان کی ایسی سرگرمیوں کی حمایت کی جا رہی ہے جو قوانین کے مطابق نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے من مانی انداز میں اسٹاک مارکٹ پر اثرانداز ہو رہی ہیں اورعوام کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوںاور خاص طور پر کانگریس کی جانب سے اس صورتحال کی بارہا نشاندہی کی جا رہی ہے اور حکومت سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ معیشت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور سارے ملک کا دار و مدار ملک کی معیشت پر ہی ہوتا ہے ۔ ملک کی معیشت کا دار و مدار کہا جاتا ہے کہ کسی وقت ہندوستان میں زرعی شعبہ پر رہا تھا تاہم روز مرہ کے امور میں اسٹاک مارکٹ میںاچھال اور اس کی گراوٹ بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ آج یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ملک کے دونوں ہی اہمیت کے حامل شعبہ جات کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے اور اس کا اثر معیشت پر ہو را ہے ۔
حالانکہ حکومت کی جانب سے معیشت اور اس کی بنیادیں مستحکم ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور کسی طرح کی مشکل صورتحال سے انکار کیا جا رہا ہے لیکن کئی گوشوںسے ان امور پرتشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔ آج ملک بھر میں کئی شعبہ جات میںروانی متاثر ہوئی ہے ۔ زرعی سرگرمیاںاتنی تیزی کے ساتھ نہیں چل پا رہی ہیںجتنی چلنی چاہئیں۔ کسانوں کی صورتحال انتہائی مشکل ہوگئی ہے ۔ ان کی آمدنی دوگنی کرنے کے وعدے دھرے کے دھرے ہی رہ گئے ہیں۔ ان کو کئی ریاستوں میں ان کی پیداوار پر اقل ترین امدادی قیمت بھی دستیاب نہیں ہو پا رہی ہے ۔ کئی ریاستوں میںکسانوں کو فصل کی قیمتیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں۔ کئی فصلیں پیداوار کے بعد ضائع ہو رہی ہیں اور ان کی خریداری نہیں ہو رہی ہے ۔ اسی طرح مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی متاثر ہو ا ہے ۔ یہاں بھی وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں جن کی ضرورت ہے ۔ روزگار کا شعبہ بھی متاثر ہے ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے مسلسل روزگار فراہم کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیںلیکن ملک میں بیروزگاری کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ نوجوانوں کی حالت بہتر نہیں ہے اور انہیں اپنے مستقبل کے تعلق سے اندیشے اورفکر لاحق ہے ۔ خود روزگار پیدا کرنے کے مواقع بھی اتنے دستیاب نہیںہیںجتنی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوںمیں ایک طرح کی بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور اس کو دور کرنا حکومت کی ہی اولین ذمہ داری بنتی ہے ۔
اندرون ملک معاشی سرگرمیوں پر جو منفی صورتحال دکھائی دے رہی ہے اس پر حکومت کو حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔ معاشی مشکلات کے تعلق سے اپوزیشن کی جانب سے جو دعوے کئے جا رہے ہیں ان پر حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے ۔ اگر ملک میںمعیشت کی صورتحال واقعتا مستحکم ہے اور کسی طرح کی فکر و تشویش کی بات نہیں ہے تب بھی حکومت کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے اپوزیشن اور ملک کے عوام کو مطمئن کرنا چاہئے ۔ پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ کے باہر ایسے معاملات پر وضاحت کرتے ہوئے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں جو بے چینی کی فضاء پائی جاتی ہے اس کو دور کیا جانا چاہئے ۔