ملک کے بدلتے حالات اور بگڑتی ساکھ ہمیں دعوت فکر وعمل دے رہی ہے. از: شعیب حسینی ندوی۔

,

   

یوں تو عالم انسانی کئی صدیوں سے اسلام دشمنی کا شکار ہو کر بر سر پیکار ہے، خاص طور پر مغرب تو عہد وسطی سے اسلام کے خلاف زور آزمائی میں لگا ہے، لیکن اکیسویں صدی کے ظہور سے امریکہ نے نئی جنگ کا آغاز کیا تھا، 9/11 نئے عہد کا آغاز تھا، اسلام سے دہشت گردی کو ایسا جوڑا گیا گویا چولی دامن کا ساتھ ہو، مسلمانوں کی شبیہ بے انتہا‌ داغدار کرنے کی روایت میڈیا کے ہر پلیٹ فارم سے چل پڑی، در اصل مشرق وسطی میں ابھرنے والی اسلامی قوت کا خاتمہ مقصود تھا، معدنی ذخائر پر قبضہ مطلوب تھا اور عالم اسلام کی عسکری طاقت کمزور کرنا ضروری تھا، چنانچہ افغانستان، عراق اور شام کو تاراج کیا گیا، مصر اور لیبیا کو مکمل کنٹرول میں لیا گیا، سعودیہ، امارات، کویت، لبنان اور بحرین پر اپنے پنجے گاڑ دیے گئے کہ وہ اپنی سانس آپ نہ لے سکیں، یمن کو فرقہ وارانہ آگ میں جھونک کر کمر توڑ دی گئی، تونس، مراکش اور شمالی افریقہ کے ممالک تو ماضی کے ملبے سے باہر ہی نہ آسکے، پاکستان داخلی سیاسی رسہ کشی سے سر نہ اٹھا سکا اور ’غلامی کے ڈالر‘ کے تلے دبتا چلا گیا، ملیشیا اور انڈونیشیا جیسے ملک اپنی معاش سے آگے بڑھ کر عالمی سیاست میں عسکری نہ ہی سیاسی کوئی اثر رکھنے کے قابل ہو سکے۔ہمارا ملک ہندوستان تو تکثیریت کے زیر سایہ ہی رہا اور مسلمان اکثریت کے نرغے میں رہے، گویا ہر وقت انکی گردن پر تلوار لٹکی رہی، ملک سے وفاداری کو ثابت کرتے رہے لیکن بے وفائی کا داغ گہرا ہوتا ہی رہا۔ہمارے ملک کے تکثیری سماج کو جب تک ہم نہیں سمجھیں گے حالات حاضرہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ یاد رہے اس ملک میں کئی مذاہب نے جنم لیا اور متعدد باہر سے آئے، ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت اور جین مت جیسے دور قدیم کے مذاہب اس سرزمین پر جنم لینے والے بڑے مذاہب میں شمار ہوتے ہیں، باہر سے پارسی (زرتشت)، یہودی، عیسائی اور اسلام مذاہب آئے۔آج ملک کا سب سے بڑا مذہبی طبقہ ہندو مت کا پیروکار شمار ہوتا ہے، اور یہ مذہب ملک کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا قدیم ترین مذہب مانا جاتا ہے جسکے پیروکار آج بھی موجود ہیں، اسکی اصل سناتن دھرم ہے اور بعد میں ہندو دھرم سے متعارف ہوا، اس مذہب کا آغاز ماقبل تاریخ ہوا، تقریبا 5000 سال سے بھی زیادہ پہلے اسکی ابتدا بتائی جاتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ معلوم تاریخ میں یہ مذہب بت پرستی کی بدترین مثال پیش کرتا ہے اور انسانی سماج کو ظالمانہ طریقہ پر طبقوں میں تقسیم کرتا ہے، اس سے سمجھ آتا ہے کہ اصل دھرم اور بعد میں بنے دھرم میں بڑا فرق ہے، اصل ویدک دھرم بعد والے برہمن واد سے بالکل مختلف ہے لیکن بعد میں ویدک مذہب برہمن واد میں تبدیل ہو چکا ہے۔باقی قدیم زمانہ میں مختلف دور میں جنم لینے والے مذاہب جین مت، بدھ مت اور سکھ مت بت پرستی کے رد عمل میں توحیدی دعوت اور ظالمانہ انسانی تقسیم کے خلاف انسانی مساوات اور حد سے گزرتی شہوت پرستی کے مقابلہ میں رہبانیت، تبتل اور عزلت پسندی کے علمبردار بن کر ابھرے، (خیال رہے کہ یہ تینوں برائیاں برہمن واد نے ہندو مذہب کو دی ہیں) لیکن رفتہ رفتہ برہمن واد نے انکو نگلنا شروع کیا اور اپنا ضمیمہ بنا کر چھوڑ دیا۔جنوبی ایشیا میں آباد قومیں جو مذہبی، لسانی اور ثقافتی بنیاد پر شمالی ایشیا سے بہت الگ ہیں وہ ڈراویڈین (Dravidian) کہلاتے ہیں، وہ بھارت کے اصل باشندہ بھی سمجھے گئے ہیں کیونکہ رنگت میں بھی وہ اس سرزمین کے اصل باشندے معلوم ہوتے ہیں، یہ اقوام آندھرا، کرناٹکا، تمل ناڈو اور کیرالہ (جنوبی ہند) میں آباد ہے، جزائر انڈمان سریلنکا اور سنگاپور وغیرہ بھی اسی نسل کی حقیقی جائے قیام ہے۔یہاں ایک بات زیر بحث لانا ضروری ہے کہ برہمن واد بظاہر مذہب کا چولا اوڑھ کر آیا لیکن وہ ایک استعماری سوچ کا نام ہے اسی لیے یہاں کے ہر مذہب اور علاقہ میں ذات پات کی تقسیم کر کے ایک طبقہ کو سب سے اوپر رکھا گیا، چاہے یہ بات جنوبی ہند میں بظاہر کم نظر آئے لیکن برہمن طبقہ یہاں بھی ہر خطہ میں پایا جاتا ہے، مذہبی، سیاسی اور سماجی سطح پر الگ الگ رنگ اور ڈھنگ سے نچلے طبقوں پر غلامی کے جوئے ڈالتا رہتا ہے، آج کی نئی آزاد باور کرائی جانے والی اور ڈیموکریسی کی دعویدار اور تعلیم یافتہ دنیا میں بھی یہ نسلی استعماری سوچ پورے طور پر زندہ اور متحرک ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ شاطر اور عیار ہے۔باقی جو ادیان باہر سے آئے ان میں زرتشت اور یہودی مذہب کوئی خاص جگہ نہیں بنا سکے کیونکہ یہ دعوتی مذہب کے بجائے نسلی مذہب تھے، البتہ عیسائیت نے کافی پیر پسارے اور برطانوی سامراج میں اسکو بہت زیادہ فروغ ملا کیونکہ یہ دعوتی مذہب ہونے کی وجہ سے مشنریز کے ذریعہ جنکو عالمی تعاون حاصل تھا تیزی سے پھیلانا اور آج ملک کا تیسرا بڑا مذہب بن گیا۔عیسائیت اپنے اندر کافی لچک رکھتا ہے وہ مستقل مذہبی شناخت کے باوجود چند رسومات میں سمٹ کر رہ گیا ہے، یہاں تک کہ بت پرستی کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنا چکا ہے۔اسلام ایسا منفرد دین ہے جو اپنے اصولوں میں کسی طور پر تنازل کو برداشت نہیں کرتا اور مکمل نظام حیات رکھتا ہے، مذہبی بنیاد پر دوئی اور ثنویت کو قبول نہیں کرتا، یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے بڑی حد تک مسلمان اکثریت میں گم یا مدغم نہیں ہوئے، گرچہ ایک طبقہ قبر پرستی اور خرافات کے اندر اکثریت سے قریب ہوا لیکن پھر بھی اپنی شناخت نہ کھو سکا۔اسلام برہمنی سوچ کے سامنے اصل خطرہ ہے، اسکا حقیقی دشمن ملک میں ہے تو اسلام ہے، جہاں تک بات کمیونزم کی ہے تو وہ دم توڑ چکا ہے اور زمینی سطح پر مذہبی بالادستی سے ہار چکا ہے۔آجکل آپ “بھارت کا ہر باشندہ ہندو” ہے جیسے نعرے اور باتیں سن رہے ہیں یہ در اصل اسی برہمنی آئیڈیالوجی کا حصہ ہے جو فکری طور پر پورے ملک میں الگ الگ تہذیب و ثقافت کے رہتے ہوئے ایک شناخت بنانے کا ہے، یاد رکھیے یہ وطن پرستی کی شناخت ہرگز نہیں ہے بلکہ وطن کے نام پر ایک مخصوص طبقہ کا ذہنی غلام بنانا ہے، اسکی سرداری اور نظام حیات کو قبول کرنا ہے، اپنی آئیڈیالوجی کو اسکی آئیڈیالوجی کے تابع و پابند رکھنا ہے۔دیکھے یہ لمبا سفر تھا کوئی دو چار روز کی داستان نہ تھی، صدی سے زائد لگا ہے اس مہم کو سر کرنے میں گرچہ ابھی تک سو فیصد کامیابی نہیں ملی ہے، برطانوی دور سے ہی یہ ذہنیت اپنی جگہ بنانے میں لگ گئی تھی اور عوامی سطح پر مذہبی سوچ بنانے لگی تھی لیکن غیر معقول اور مجموعۂ خرافات دھرم ہزار کوششوں کے باوجود نئی دنیا میں بہت زیادہ قوموں کو متحد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا، اس نے نیا پینترا بدلا اور اب مشترک دشمن ڈھونڈ کر برانڈ کیا، مسلمانوں کو اکثریت کے وجود کے لیے خطرہ سمجھایا گیا، غاصب اور غدار دکھایا گیا، ملک کی اسلامی تاریخ کو نہایت داغدار بنا کر پیش کیا گیا، معماران وطن کو لٹیروں کا لقب دیا گیا، اپنے ہیرو تلاش کیے گئے اور انکی اوٹ میں اصل مسلمان ہیروؤں کو غائب کر دیا گیا۔انتظامی اور قانونی عہدوں تک اس ذہنیت کو لمبی جد وجہد کے بعد پہنچایا گیا اور تسلط قائم کیا گیا، آزادی کی بعد کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کانگریس جو سیکولرازم کا چولہ اوڑھ کر آئی تھی اس کے دام میں آتی چلی گئی۔سماجی سطح پر غلط فہمیوں کا طومار کھڑا کر کے نفرت کی آگ سلگائی گئی، قریب ہونے کے امکانات کو ختم کرنے کی کوششیں خوب ہوئیں، فسادات کی غبار آلود ماحول میں خلیج بڑھتی رہی۔پھر مال کے سہارے باقی بچی کسر ختم کرنے کا کام ہوا، میڈیا کو خرید کر من چاہی فضا ہموار کی جاتی ہے، ڈیموکریسی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انتظامی اور قانونی اداروں کو بندھک بنا لیا جاتا ہے۔یہ وہ نقشہ ہے جو کئی دہائیوں کی منظم کوشش سے تیار ہوا ہے۔(جاری)