ملک کے شہیدوں پر تنقیدیں

   

تڑپا کے زندگی کو وہ خود بھی تڑپ گئے
میری تڑپ تو اب دل بسمل نکل گئی
ملک کے شہیدوں پر تنقیدیں
اب بی جے پی ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردینے والوں کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنانے پر اتر آئی ہے ۔ جہاں بی جے پی کے مختلف قائدین کی جانب سے نت نئے انداز سے سیاسی اختلاف کی سطح کو مسلسل گرایا جاتا رہا ہے وہیں اب بی جے پی میں شامل ہوئی نئی امیدوار پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے ملک پر جان قربان کردینے والے شہید پولیس عہدیدار ہیمنت کرکرے کو ہی تنقید کا نشانہ بنادیا ہے ۔ سادھوی پرگیہ ٹھاکر وہی ہے جسے مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمہ میں گرفتا رکرکے جیل بھیجا گیا تھا تاہم یہ ہندوتوا وادی حکومت کی مداخلت اور ہماری تحقیقاتی ایجنسیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ اس کے خلاف الزامات کو عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکے اور وہ بری ہوگئیں۔ بی جے پی ایسے ہی عناصر کی ہمیشہ سے سرپرستی کرتی آئیہ ے اور جو شبہات تھے کہ بی جے پی حکومت ایسے ملزمین کو بچانے کیلئے کوشش کرتی رہی ہے وہ پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال سے بی جے پی امیدوار بنائے جانے سے مزید تقویت حاصل کرگئے ہیں۔ اب باضابطہ سیاسی سرپرستی اور لوک سبھا انتخابات کا ٹکٹ ملتے ہی پرگیہ ٹھاکر بے لگام ہوگئی ہیں اور ہیمنت کرکرے جیسے شہید کو نشانہ بنانے پر اتر آئی ہیں۔ ہیمنت کرکرے نے ملک میں ہندو دہشت گردوں کا پردہ فاش کیا تھا ۔ انہوں نے مختلف گوشوں سے پڑنے والے دباو اور تنقیدوں کو خاطر میں لائے بغیر قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ اپنا فرض پورا کیا تھا ۔ ہیمنت کرکرے وہ عہدیدار ہیں جنہوں نے نہ محکمہ کے دباؤ کو قبول کیا اور نہ سیاسی دباؤ کی پرواہ کی ۔ انہوں نے پولیس کی وردی ذیب تن کرتے ہوئے غیر جانبداری اور دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کیا اور اپنی جان کی تک بھی پرواہ نہیں کی ۔ انہیں ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ اس ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ۔ سارے ملک نے انہیںخراج عقیدت پیش کیا تھا اور آج کی ان کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے لوگ انہیں خراج پیش کرتے ہیں۔ سادھوی پرگیہ اپنے خلاف تحقیقات کی وجہ سے ذاتی انا کی تکمیل کی خاطر انہیں نشانہ بنانے پر اتر آئی ہیں جو انتہائی مذموم حرکت ہے ۔
جب کبھی ایسا ہوتا ہے بی جے پی اپنے قائدین کی سرزنش کرنے کی بجائے اسے ان کی شخصی رائے قرار دیتے ہوئے دامن بچالیتی ہے ۔ اس طرح وہ بالواسطہ طور پر ایسے قائدین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے اور تیسرے درجہ کے قائدین انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بیہودہ بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ جس وقت ایک اور رکن پارلیمنٹ سادھوی پراچی نے رام زادے اور حرام زادے کا ریمارک کیا تھا اس وقت بھی خود وزیر اعظم نے ان کی مدافعت کی تھی ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے ان کے پسماندہ پس منظر اور لا علمی کا بہانہ کیا تھا ۔ جب یہ لوگ لا علم ہوتے ہیں اور انہیں بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں ہوتا تو پھر انہیں پارلیمنٹ تک کیوں پہونچایا جاتا ہے ؟ ۔ شائد صرف اس لئے کہ یہ لوگ لا علمی کے بہانے سے زہر اگلتے رہیں اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوتا رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرگیہ ٹھاکر کو بھی انتخابی میدان میں اتارکر ان کے مقدمہ کے داغ کو دھونے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ ٹکٹ ملتے ہی بے لگام ہوگئی ہیں۔ اس بار بھی بی جے پی نے خود کو ان کے بیان سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرگیہ جو کہہ رہی ہیں وہ ٹھیک ہے لیکن عوامی زندگی میں اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور یہ تجربہ پرگیہ ٹھاکر کو نہیں ہے ۔ یہ ایک بھونڈا مذاق ہے ۔
ہندوستان وہ عظیم ملک ہے جہاں لاکھوں پولیس اور نیم فوجی عملے کے ارکان بھی شبانہ روز خدمات انجام دیتے ہیں اور ملک میں امن و امان برقرار رکھا جاتا ہے اور جب کبھی ملک پر کوئی آنچ آتی ہے وہ سینہ تان کر ڈٹ جاتے ہیں اور ایسے خطرات کا خاتمہ انجام دیتے ہیں۔ ایسے عناصر سے محض ذاتی انا کی تکمیل اور اپنے بغض و عناد کی وجہ سے دشمنی کرنا انتہائی مذموم فعل ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی اورا س کے قائدین ایسا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں ملک اور ملک کے مفادات اور شہید عہدیداروں کے وقار اور احترام سے زیادہ محض سیاست اور انتخابی فائدہ کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ یہ ملک کے شہیدوں سے مذاق ہے ۔