ملک گیر ایس آئی آر پر بے چینی

   

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر ہوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک گیر سطح پر ایس آئی آر کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ ابتدائی مرحلہ میں ملک کی نو ریاستوں اور تین مرکزی زیر انتظام علاقوںم یں ایس آئی آر شروع کیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن کا یہ دعوی ہے کہ ووٹر لسٹ کو خامیوں اور غلطیوں سے پاک کرنے کے مقصد سے یہ عمل شروع کیا جا رہا ہے ۔ ایس آئی آر پر سارے ملک میں ایک طرح کی بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے کیونکہ بہار میں ایس آئی آر کے باوجود بھی ووٹر لسٹ میں جو خامیاں پائی جارہی ہیں ان کے تعلق سے یہ شبہات پیدا ہونے لگے ہیں کہ یہ خامیاں محض اتفاقی نہیں ہوسکتیں اور الیکشن کمیشن نے بی جے پی کی مدد کیلئے یہ سارا کچھ کیا ہے ۔ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے لوک سبھا انتخابات میں دہلی میں ووٹ استعمال کیا تھا اور اب انہوں نے بہار میں اسمبلی انتخابات میں بھی اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے ۔ اسی طرح پونے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی سیلفی بھی موضوع بحث بن گئی ہے ۔ پونے کی خاتون نے کل ایک سیلفی اپ لوڈ کی جس میں اس نے دعوی کیا کہ بہار اسمبلی انتخابات میں اس نے مودی کی تائید میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے ۔ اسی خاتون کی گذشتہ سال کی ایک تصویر بھی سامنے آئی ہے جس میں اس خاتون نے مہاراشٹرا انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے بعد انک کا نشان دکھایا تھا ۔ اس طرح سے یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ ایک ہی ووٹر کئی بوتھس پر نہیں بلکہ کئی ریاستوں میں ووٹ ڈال رہا ہے اور یہی دعوی قائد اپوزیشن راہول گاندھی کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسی طریقہ سے مودی حکومت ووٹ چوری اور الیکشن چوری کر رہی ہے ۔ راہول گاندھی کا دعوی ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ووٹ چوری کی اور الیکشن چوری کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے ۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کا سوال ہے تو وہ اس پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے حالانکہ اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کرنا اور حقائق کو منظر عام پر لاتے ہوئے غلطیوں کو سدھارنا خود الیکشن کمیشن ہی ذمہ ہے ۔ تاہم کمیشن کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
بہار میں کل پہلے مرحلے کی رائے دہی کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہزاروں افراد جو ووٹ ڈالنے کیلئے مختلف پولنگ بوتھس کو پہونچے تھے وہاں انہیں پتہ چلا کہ ان کا ووٹ حذف کردیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ ایک بھی اہل ووٹر کا ووٹ حذف نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس کے باوجود ہزاروں افراد کے ووٹ فہرست سے غائب پائے گئے ہیں۔ بہار میں یہ صورتحال الیکشن کمیشن کی جانب سے ایس آئی آر کا عمل مکمل کرلئے جانے کے باوجود سامنے آئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایس آئی آر کا عمل انتہائی ناقص انداز میں کیا گیا ہے اور فہرست رائے دہندگان کو بہتر بنانا اس کا مقصد نہیں تھا بلکہ لاکھوں ووٹ حذف کرنا اورلاکھوں نئے ووٹ شامل کرنا ہی اس سارے عمل کا حصہ تھا ۔ اسی وجہ سے الیکشن کمیشن پر بی جے پی کی مدد کرنے اور اس کے ساتھ ساز باز میں کام کرنے کے الزامات عائد ہونے لگے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے بہار کے مقامی باشندوں کے ووٹ فہرست سے حذف کردئے گئے اور کس طرح سے دوسری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے بہار میں ووٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے نام کس طرح سے بہار کی فہرست میں شامل کئے گئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سنگین ص ورتحال ہے اور اس کے نتیجہ میں ایس آئی آر کے عمل پر ہی سوال اور شبہات پیدا ہونے لگے ہیں جو جائز اور واجبی کہے جاسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں شک کے دائرے میں ہے ۔
اب جبکہ بہار میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ ایس آئی آر کے باوجود ہزاروں افراد کے نام حذف ہوگئے ہیں اور ہزاروں افراد کے نام شامل کردئے گئے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ سارے ملک میں ایس آئی آر کرتے ہوئے کیا کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ الیکشن کمیشن فہرست رائے دہندگان میں ناموں کی شمولیت کے معاملے میں ہندوستانی شہریت کے ثبوت مانگ رہا ہے جبکہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن کا امیج پوری طرح سے مشکوک ہوگیا ہے اور عوام میں جو بے چینی پیدا ہو رہی ہے وہ بھی واجبی ہے ۔ کمیشن کو اپنے امیج کو بہتر بنانے حکومت کے اشاروں پر نہیں بلکہ دستور کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے ۔