ممبئی ٹرین دھماکہ ‘ ملزمین کی براء ت

   

کچھ دیر ٹہر جائیے اے بندۂ انصاف
ہم اپنے گناہوں میں خطا ڈھونڈ رہے ہیں
ممبئی میں تقریبا دو دہے قبل ہوئے ٹرین بم دھماکوں کے کیس میں ہائیکورٹ کی جانب سے تمام 12 ملزمین کو بری کردیا گیا ہے ۔ یہ تمام 12 مسلم نوجوان تقریبا 19 سال کے طویل عرصہ سے جیل میںبند تھے ۔ وہ کچھ دن کیلئے بھی جیل سے باہر نہیں آ پائے تھے ۔ ان نوجوانوں کو ٹرائیل عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی ۔ تاہم آج بمبئی ہائیکورٹ کی جانب سے ٹرائیل عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام ملزم نوجوانوں کو بری کردیا گیا ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ استغاثہ ان نوجوانوں کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ اب جبکہ 19 سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے اور یہ نوجوان بری کردئے گئے ہیں تو اس سارے معاملے پر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا ان 12 نوجوانوں کے19 سال لوٹائے جاسکتے ہیں ؟ ۔ یہ نوجوان تقریبا دو دہوں تک اس گناہ کے الزام میں قید کی زندگی دگذار چکے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا ۔ کیا تحقیقات کرنے والے عہدیداروں سے اب بھی باز پرس نہیں ہوگی ۔ ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آیا انہوں نے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کو کیوں تباہ کردیا ۔ کیوں ان کی زندگی کے انتہائی قیمتی 19 برس جیل میں گذارنے پر مجبو رکردیا گیا ۔ کیا مرکزی حکومت کی جانب سے ان تمام افرادکی باز آباد کاری کیلئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ انہیں طویل وقت تک جس ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا شکار ہونا پڑا ہے اس کا کوئی معاوضہ ادا کیا جائے گا ۔ ان تمام افراد کے اہل خانہ جس مصیبت سے گذرے ہیں کیا اس کا کوئی مداوا ممکن ہوسکے گا ؟ ۔ جواب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے اور نوجوانوں کو اپنی ٹوٹی پھوٹی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے خود ہی جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ سب سے پہلے تو انہیں 19 سال کی طویل اذیت سے خود کو باہر لانا ہوگا ۔ ذہنی اور جسمانی طور پر انہیں اپنے آپ کو سدھارنا اور بہتر بنانا ہوگا ۔ سماج میں اپنے مقام کو بحال کرنے کیلئے پھر ایک طویل جدوجہد کرنی ہوگی جو جیل کی صعوبتوں کی طرح ہی آسان نہیں بلکہ مشکل ہوگی ۔
قانونی نقطہ نظر سے یہ سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جب جن نوجوانوں کو اس مقدمہ میں ماخوذ کیا گیا تھا وہ بے گناہ ہیں تو اصل حملہ آور کہاں ہیں ۔ کیوں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں انہیں گرفتار کرنے اور حقائق کو منظر عام پر لانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہیں۔ یہ شبہات تقویت پاتے ہیں کہ آیا اصل ملزمین کو بچانے کیلئے ہی تو بے گناہ نوجوانوں کو اس ماں ماخوذ نہیں کیا گیا تھا ۔ اس کے پس پردہ مقاصد کیا تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ممبئی میں 2006 میں ٹرین بم دھماکے ہوئے تھے ۔ 189 افراد کی جانیں چلی گئی تھیں۔ سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے تھے ۔ یہ انتہائی سنگین اور گھناؤنا جرم کسی نے تو کیا ہے ۔ تو یہ مجرمین کون تھے ۔ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں اور پولیس فورس اور اے ٹی ایس ان کا پتہ چلانے اور انہیں گرفتار کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئیں۔ یہ ہماری ایجنسیوں کی کارکردگی کا سوال ہے ۔ ان کی غیرجانبداری کا سوال ہے ۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا سوال ہے ۔ اس پر خود تحقیقاتی ایجنسیوں اور اس کے ذمہ داروں اور ان کے متعلقہ محکمہ جات کے سربراہان کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے انتہائی سنگین دھماکوں کے ملزمین کا پتہ نہ چلایا جانا بھی انتہائی سنگین مسئلہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارکردگی پر شکوک اور سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور اس کا جواب دیا جانا بہت ضروری ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیاں جوابدہی سے بری نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی ان کے ذمہ دار سوالات سے بچ سکتے ہیں۔
مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں ہوں جہاں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں انہیں یہ ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ قانون کا تقاضہ یہی ہے کہ کوئی بے گناہ کسی ناکردہ گناہ کی سزا نہ پائے اور ساتھ ہی کوئی گناہ گار سزا سے بچ نہ پائے ۔ ممبئی ٹرین دھماکوں کے معاملے میں دونوں ہی پہلووں کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ ناکردہ گناہ کی 19 سال تک بے قصور نوجوانوں نے سزا پائی ہے اورجو کوئی بھی قصور وار تھے وہ دو دہوں بعد بھی سزا اور قانون سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو ہمارے تحقیقاتی نظام پر سوال پیدا کرتی ہے اور ایجنسیوں اور حکومت کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔