میں نے سینچا ہے چمن کو جو لہو سے اپنے
آسمانِ سیاست پہ رہونگی میں شفق کی طرح
دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کوشاندار کامیابی ملی ہے ۔ پارٹی ریاست میں 25 سال سے زیادہ کے عرصہ کے بعد اقتدار میں آئی ہے ۔ اس کامیابی کیلئے بی جے پی نے کئی حربے اور ہتھکنڈے اختیار کئے تھے ۔ تمام وسائل بھی استعمال کئے گئے تھے ۔ جہاں عوام کو رجھانے کی کوشش کی گئی وہیں اپنے آلہ کاروں کا بھی پوری طرح سے استعمال کیا ۔ سرکاری مشنری کے استعمال کے امکانات بھی مسترد نہیں کئے جاسکتے ۔ غرض یہ کہ بی جے پی نے تمام تر طاقت جھونک دی اور پھر اسے دہلی میں اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ ابھی کل نتائج کا پوری طرح سے اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ بنگال میں بی جے پی لیڈر سویندھو ادھیکاری نے ایک بیان دینے میں ضرورت سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ جس طرح دہلی میں اروند کجریوال کو شکست سے دو چار کیا گیا ہے اسی طرح بنگال میں ممتابنرجی کو بھی شکست سے دوچار کردیا جائیگا ۔ یہ سب کچھ خوش فہمی کے سواء کچھ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ بی جے پی اور اس کی اعلی قیادت کو پتہ ہے کہ ممتابنرجی کو شکست دینا دہلی کی طرح آسان نہیں ہوگا ۔ بی جے پی کو بنگال کے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے ۔ گذشتہ بنگال اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ساری طاقت جھونک دی تھی ۔ مرکزی وزراء کی پوری فوج بنگال کے چکر لگا رہی تھی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی ریاست کے دوروں اور ریلیوںسے خطاب میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی تھی ۔ کئی ریاستوں کے بی جے پی چیف منسٹروں نے بھی بنگال کے دورے کئے ۔ مرکزی ایجنسیوں کا انتخابات کے پہلے ہی سے استعمال شروع ہوچکا تھا ۔جو سویندو ادھیکاری آج ممتابنرحی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں وہ خود ممتابنرجی کی پیداوار ہیں اور انہیں کے ساتھ سیاست شروع کی تھی ۔ کئی قائدین ترنمول کانگریس میں تھے جنہیںشاردا اسکام میںمرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی کی صفوں میںشامل کیا گیا تھا ۔ ان میںکئی نے ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس میں واپسی بھی کرلی ہے ۔ سویندو ادھیکاری کیلئے یہ راستہ ہموار نہیںہوسکا ۔
یہ درست ہے کہ بی جے پی کو دہلی میں اقتدار حاصل ہوگیا ہے ۔ اب اس کی وجوہات چاہے کوئی کچھ بھی بتائے ۔ انتخابی مشنری کے استحصال کی بات ہو یا پھر اروند کجریوال کے الفاظ میں ووٹر لسٹ میںناموں کی شمولیت یا اخراج ہو ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی پارٹی دہلی میںاقتدار سے بیدخل ہوچکی ہے اور بی جے پی نے یہاںاقتدار پراچھی واپسی کی ہے ۔ تاہم بنگال کی صورتحال مختلف ہے ۔ دہلی میںملک کی کئی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے بستے ہیں۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار ہے ۔ ایسے میںا ن ریاستوں کے عوام نے دہلی میں بھی بی جے پی کیلئے ووٹ دیا ہے ۔ تاہم بنگال میںصرف بنگال سے تعلق رکھنے والے عوام ہیں۔ وہ ممتابنرجی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ دو معیادوں کی تکمیل کے بعد پہلے سے زیادہ اکثریت سے انہیں تیسری معیاد دی گئی ہے ۔ ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی نشستوں میںکمی آئی ہے ۔ ممتابنرجی بنگال کے عوام کی نبض سمجھتی ہیں۔بنگال اور وہاں کے عوام کی صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے لگاتار جدوجہد کر رہی ہیں۔ بی جے پی سے نمٹنے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔ ایک سے زائد مواقع پر انہوں نے بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا بھی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ بنگالی عوام کیلئے جدوجہد کی علامت بن گئی ہیں اور کئی اہم مواقع پر انہوں نے مرکزی حکومت یا سیاسی مخالفین سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے میں کوئی گریز نہیں کیا اور یہ ٹکراؤ بھی انہوں نے کھلے عام کیا ہے ۔
اس کے علاوہ ممتابنرجی نظریاتی سیاست کی پابند ہیں۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں کو ایک نظریہ کا پابند بنایا ہے ۔ بنگال کے عوام کی رائے بنانے میں بھی انہوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ وہ جہاں عوام کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے جدوجہد کرتی ہیں وہیں فرقہ پرستوں سے مقابلہ میں بھی کھلے عام ٹکراؤ کی راہ اختیار کرتی ہیں۔ اروند کجریوال نے نظریاتی سیاست کی پرواہ ہی نہیں کی تھی اور مفت خدمات پر ہی اکتفاء کیا تھا ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ممتابنرجی آسان نشانہ نہیں ہیں اور وہ بی جے پی کو اس کی ساری طاقت کے باوجود ناکوں چنے چبوا سکتی ہیں اور انہوں نے ایسا پہلے بھی ایک سے زائد بار کر دکھایا ہے ۔