کسی کی پرسشِ پیہم کا شکریہ لیکن
زباں سے کیا کہیں حالت دکھائی دیتی ہے
ممتابنرجی اور گورنر کا ٹکراؤ
مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔ ممتابنرجی تیسری معیاد کیلئے چیف منسٹر بن چکی ہیں۔ وہ حلف لے چکی ہیں۔ انہیں پہلے سے زیادہ نشستیں اورعوامی تائید حاصل ہوئی ہے ۔ اس سب کے باوجود ریاست میں سیاسی ماحول معمول پر نہیں آیا ہے ۔ ریاستی گورنر اور چیف منسٹر کے درمیان اختلافات شدت ہی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ نہ گورنر اپنے رویہ میں تبدیلی لانے تیار ہیں اور نہ ہی چیف منسٹر اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ دونوں عہدے انتہائی معزز اور باوقار ہیں۔ ایک دستوری عہدہ ہے تو دوسرا عوامی منتخب ذمہ داری ہے ۔ دو اہم عہدوں میں ٹکراو نہ ریاست کے مفاد میں ہوگا اور نہ ریاستی عوام کے مفاد میں ہوگا ۔ اکثر ان ریاستوں میں گورنرس کے ساتھ ریاستی حکومتوں کا ٹکراو ہو رہا ہے جہاں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں۔ اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں ۔ دارالحکومت دہلی میں بھی عوام کے ووٹ کے ذریعہ منتخبہ حکومت کو لیفٹننٹ گورنر کا تابع بنادیا گیا ہے ۔ ریاستی حکومت کی تجاویز اور فیصلوں کو گورنر کی جانب سے مسترد کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ مغربی بنگال میں تاہم ایسا لگتا ہے کہ صورتحال قدرے مختلف ہے ۔ یہاں ریاستی گورنر جگدیپ دھنکر کے خلاف سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا الزام ہے اور آج تو چیف منسٹر ممتابنرجی نے انہیں بدعنوان شخص بھی قرار دیدیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جین حوالہ کیس میں جگدیپ دھنکر کا نام بھی سامنے آیا تھا ۔ ریاستی گورنر بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی چیف منسٹر کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں۔ گورنر موصوف ریاست کے دستوری سربراہ ہیں اور انہیں عوام کے ووٹ سے منتخبہ حکومت کے کام کاج میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے اس سے تعاون کرنا چاہئے ۔ چیف منسٹر اور گورنر کے ٹکراو سے جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس سے سارے ملک میں غلط نظیر قائم ہو رہی ہے ۔ دستوری اور عوامی عہدوں کا وقار متاثر ہو رہا ہے اور عوام میں غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے ۔ ریاست کے حالات سارے ملک میں غلط نظیر قائم کر رہے ہیں۔
ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل سے ہی ماحول بگڑنے لگا تھا ۔ حکومت کی جانب سے گورنر پر سرکاری کام کاج میں غیر ضروری مداخلت کے الزامات عائد کئے جا رہے تھے اور گورنر بھی مسلسل عوامی تقاریب میںحکومت کے مخالف موقف اختیار کرتے جا رہے تھے ۔ جس وقت اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا اور ممتابنرجی نے چیف منسٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال لی اس وقت سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ یہ ٹکراو اب ختم ہوجائے گا ۔ تاہم ایسا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹکراو کی کیفیت میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گورنر کی جانب سے بعض مواقع پر سیاسی تبصرے کئے گئے ہیں جو ان کے عہدہ کو ذیب نہیں دیتے ۔ گورنر دستوری سربراہ ہوتے ہیں اور ان کا عہدہ انتہائی معزز اور با وقار ہوتا ہے ۔ سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے دستوری عہدوں کے وقار کو پامال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ریاست میں پیش آنے والے واقعات پر گورنر کا جو رد عمل ہوتا ہے وہ عوامی سے زیادہ سرکاری ہونا چاہئے ۔ حکومت کی سطح پر اقدامات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے لیکن ٹکراو کی کیفیت سے ہر دو فریقین کو گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بنگال میں اس حقیقت کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ ترنمول کانگریس کے الزامات کے مطابق گورنر سیاسی اثر کے تحت کام کرتے ہوئے حالات کو بگاڑنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہ جو روایت راج بھونس ے سیاسی امور میںمداخلت کی شروع ہورہی ہے وہ ملک میں کبھی دیکھی نہیں گئی تھی اوراس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
گورنر ہوں کہ چیف منسٹر ہوں دونوں کو اپنے اپنے موقف میں تبدیلی اور نرمی لاتے ہوئے اپنے اپنے عہدوں کے وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی حکومت اس معاملے میں سرگرم اور مصالحانہ رول ادا کرسکتی ہے ۔ فریقین کو اپنے اپنے حدود کا احساس کرواتے ہوئے مرکزی حکومت ریاست کے ماحول کو مزید بگڑنے سے بچاسکتی ہے اور ایسا کرنے کیلئے اسے آگے آنا چاہئے ۔ دستوری عہدوں کے ذریعہ سیاسی مفادات کی تکمیل کی کوششیں شائد ہی کبھی کامیاب ہو پائیں گی ۔ اگر ایسی کوششیں کامیاب ہوبھی جاتی ہیں تو اس سے عہدوں کا وقار مجروح ہوجاتا ہے ۔ اس وقار کو بچانے پر سب کی توجہ ہونی چاہئے ۔
